رسائی کے لنکس

ایران میں پارلیمانی انتخابات: 'الیکشن کمزور ہوئے تو نقصان سب کا ہوگا'


تہران میں ایک خاتون ایران کا جھنڈا لہرا رہی ہے، 28 فروری 2024
تہران میں ایک خاتون ایران کا جھنڈا لہرا رہی ہے، 28 فروری 2024
  • ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خانہ ای خامنہ ای نے عوام سے ووٹ ڈالنے کی اپیل کرتے ہوئے اسے قومی فریضہ قرار دیا ہے۔
  • پچھلی دو دہائیوں سے پارلیمنٹ کا کنٹرول سخت گیر افراد کے ہاتھ میں ہے۔
  • اے پی کے تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ معاشی مسائل، حکمرانوں کی سخت گیری اور عالمی تنہائی کے باعث ووٹر مایوس ہیں اور ووٹ ڈالنے میں دلچسپی کم نظر آتی ہے۔

ایران میں جمعے کے روز پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں، لیکن اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کون منتخب ہوتا ہے۔ جب کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کتنے لوگ ووٹ ڈالتے ہیں۔

معاشی مسائل سے نمٹنے کے معاملے میں بڑی پیمانے پر بے اطمینانی، ملک کو ہلا کر رکھ دینے والے بڑے پیمانے کے مظاہرے، تہران کے جوہری پروگرام پر مغرب کے ساتھ تناؤ اور یوکرین روس کی جنگ میں ایران کی روس کے لیے حمایت کے باعث بہت سے لوگ خاموشی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس الیکشن میں ووٹ نہیں دیں گے۔

حکام نے لوگوں پر ووٹ ڈالنے کے لیے زور دیا ہے لیکن اس سال سرکاری ووٹنگ سینٹر آئی ایس پی اے نے متوقع ٹرن آؤٹ کے بارے میں معلومات جاری نہیں کیں جو کہ ماضی کے انتخابات کی ایک مستقل خصوصیت رہی ہے۔

حال ہی میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے 21 ووٹروں کے انٹریوز کیے ہیں جن میں سے صرف پانچ نے کہا ہے کہ الیکشن میں ووٹ ڈالیں گے، 13 نے کہا کہ وہ ووٹ نہیں دیں گے،جب کہ تین کا کہنا تھا کہ انہوں نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

یونیورسٹی کے ایک 21 سالہ طالب علم امین نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنے نام کا صرف پہلا حصہ بتاتے ہوئے کہا کہ اگر میں کسی ناکامی یا غفلت کے بارے میں احتجاج کروں گا تو پولیس اور سیکیورٹی ایجنٹ مجھے روکنے کی کوشش کریں گے، لیکن اگر میں شہر کی مرکزی شاہراہ پر بھوک سے مر جاؤں تو وہ کوئی ردعمل ظاہر نہیں کریں گے۔

انتخابی مہم کے دوران خواتین ایرانی پرچم لہر رہی ہیں۔ ہکم مارچ کو ہونے والے انتخابات کی 290 نشستوں کے لیے 15 ہزار امیدوار میدان میں ہیں۔ 28 فروری 2024
انتخابی مہم کے دوران خواتین ایرانی پرچم لہر رہی ہیں۔ ہکم مارچ کو ہونے والے انتخابات کی 290 نشستوں کے لیے 15 ہزار امیدوار میدان میں ہیں۔ 28 فروری 2024

ایران کی پارلیمنٹ

ایران کی 290 ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ کے لیے ، جسے سرکاری طور پر اسلامی مشاورتی اسمبلی کہا جاتا ہے، 15 ہزار سے زیادہ امیدوار میدان میں ہیں۔ انہیں چار سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ جب کہ اسمبلی میں ایران کی مذہبی اقلیتوں کے لیے پانچ نشستیں رکھی گئی ہیں۔

قانون کے تحت، پارلیمنٹ، انتظامیہ کے شعبے کی نگرانی کرتی ہے۔ معاہدوں پر ووٹ دیتی ہے اور دیگر معاملات کو سنبھالتی ہے۔ عملی طور پر، ایران میں اصل طاقت اس کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے پاس ہے۔

پچھلی دو دہائیوں سے پارلیمنٹ کا کنٹرول سخت گیر افراد کے ہاتھ میں ہے۔

پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف کے تحت مقننہ نے 2020 میں ایک بل کو آگے بڑھایا جس نے اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تہران کے تعاون کو بڑی حد تک محدود کر دیا۔ قالیباف پاسداران انقلاب کے ایک سابق جنرل ہیں اور انہوں نے 1999 میں ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن میں مدد کی تھی۔

الیکشن میں حصہ لینے والے ایک امیدوار کا انتخابی پوسٹر ۔28 فروری 2024
الیکشن میں حصہ لینے والے ایک امیدوار کا انتخابی پوسٹر ۔28 فروری 2024

حال ہی میں، ایرانی پارلیمنٹ نے 2022 میں 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد خواتین کے لیے ایران کے لازمی ہیڈ اسکارف، یا حجاب سے متعلق مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے، جس نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا تھا ۔

ان مظاہروں میں 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور 22 ہزار سے زیادہ کو حراست میں لیا گیا تھا، جن میں سے کئی ایک کو پھانسیاں دیں گئیں اور بہت سوں کو مختلف معیاد کی سزائیں سنائی گئیں۔

حالیہ ہفتوں میں انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیلیں کی گئیں ہیں، جن میں جیل میں قید خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن، نوبیل امن انعام یافتہ نرگس محمدی کی اپیل بھی شامل ہے جو ان انتخابات کو دھوکہ قرار دیتی ہیں۔

بائیکاٹ کی اپیلوں نے حکومت کو ایک نئے دباؤ میں ڈال دیا ہے۔

بدھ کے روز ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خانہ ای خامنہ ای نے خود لوگوں سے ووٹ ڈالنے کی اپیل کرتے ہوئے اسے ایک قومی فریضہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ انتخابات میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسروں کو الیکشن میں حصہ نہ لینے کی ترغیب دیتے ہیں، انہیں کچھ اور سوچنا چاہیے۔

سرکاری طور پر جاری کیے جانے والے اس فوٹو میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای لوگوں سے ووٹنگ میں حصہ لینے کی اپیل کر رہے ہیں۔ 28 فروری 2024
سرکاری طور پر جاری کیے جانے والے اس فوٹو میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای لوگوں سے ووٹنگ میں حصہ لینے کی اپیل کر رہے ہیں۔ 28 فروری 2024

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمزور رہے تو اس کا سب کو نقصان ہو گا۔

ٹرن آؤٹ کا ریکارڈ

پولنگ ایجنسی آئی ایس پی اے نے اکتوبر میں انتخابی سروے کرائے تھے لیکن ان کے نتائج کو ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ سیاست دانوں اور میڈیا کے دیگر اداروں کا خیال ہے کہ اس کے نتائج 30 فی صد کے لگ بھگ تھے۔

2021 کے صدارتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 49 فی صد تھا، جو صدارتی انتخابات میں ووٹنگ کا سب سے کم ریکارڈ ہے۔ اس انتخاب کے نتیجے میں سخت گیر ابراہیم رئیسی صدر بنے تھے جب کہ لاکھوں ووٹوں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ ممکن ہے کہ لوگ اب اس وجہ سے بھی ووٹ ڈالنا نہ چاہتے ہوں۔

2019 کی پارلیمنٹ کی دوڑ میں 42 فیصد ٹرن آؤٹ دیکھا گیا

ملک کے ماہرین کی اسمبلی کے لیے ووٹنگ

اس کے علاوہ ایران کے شہری جمعے کے روز ماہرین کی 88 نشستوں والی اسمبلی کے ارکان چننے کے لیے بھی ووٹ ڈالیں گے۔ اس اسمبلی کے ارکان کے عہدے کی معیاد 8 سال ہے اور وہ نئے سپریم لیڈر کا انتخاب کریں گے۔ موجودہ سپریم لیڈر خامنہ ای کی عمر اس وقت 84 سال ہے۔

ماہرین کی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کے لیے سابق ایرانی صدر حسن روحانی کا راستہ روکا گیا تھا۔ انہیں اعتدال پسند شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ ان کے دور میں 2015 میں ایران کا عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدہ ہوا تھا۔

ایک شخص دیوار پر چسپاں امیدواروں کے پوسٹر دیکھ رہا ہے۔ یکم مارچ کو ہونے والے انتخابات میں کم ٹرن اور کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ 22 فروری 2024
ایک شخص دیوار پر چسپاں امیدواروں کے پوسٹر دیکھ رہا ہے۔ یکم مارچ کو ہونے والے انتخابات میں کم ٹرن اور کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ 22 فروری 2024

ووٹروں سے اے پی کا ایک سروے

ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے بتایا کہ وہ ایران کے معاشی مسائل کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ لینا نہیں چاہتے۔ ایران میں مہنگائی کی سطح تقریباً 50 فی صد ہے اور 20 فی صد کے لگ بھگ نوجوان بے روزگار ہیں۔

اے پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک 53 سالہ ٹیکسی ڈرائیور، جس نے انتقامی کارروائی کے ڈر سے اپنے نام کا صرف پہلا حصہ مرتضیٰ بتایا، کہا کہ میں ووٹ کیوں دوں؟ میں نے ماضی میں کئی بار ووٹ دیا ہے لیکن میں آج بھی اپنی تین بیٹیوں کی تعلیم کےاخراجات، مکان کے کرائے اور دوسرے مسائل کا شکار ہوں اور میں غریب تر ہوتا جا رہا ہوں۔

ایک 42 سالہ خاتون مرضیہ مقدم نے کہا کہ وہ ووٹ دینے ضرور جائیں گی کیونکہ یہ ایک قومی فریضہ ہے۔

ایک 32 سالہ بینک کلرک عباس کاظمی نے کہا کہ وہ ووٹ دینے جائیں گے کیونکہ اگر الیکشن کو زندہ نہ رکھا گیا تو سخت گیر عناصر اسے ہمیشہ کے لیے بند کر دیں گے۔

(رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG