متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور کراچی کے میئر وسیم اختر بالآخر چار ماہ کی قید کاٹنے کے بعد بدھ کو ضمانت پر جیل سے رہا کر دیئے گئے۔ان کی رہائی پارٹی ورکرز کے لئے خوشی کا پروانہ بن گئی، جبکہ شہری سیاست میں اسے ایک نئی ہلچل سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
بدھ کی صبح ان کی 39 ویں مقدمے میں بھی ضمانت منظور کرلی گئی جس کے نتیجے میں انہیں شام کے قریب پانچ بجے کراچی سینٹرل جیل سے رہا کردیا گیا۔
رہائی کے وقت جیل کے باہر ایم کیو ایم پاکستان کے سینکڑوں کارکن، ہمدرد اور پارٹی سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار، خواجہ اظہار الحسن، امین الحق، فیصل سبزواری، عامر خان اور دیگر قیادت موجود تھی جنہوں نے وسیم اختر کا سینٹرل جیل کے مرکزی دروازے پر پُرجوش استقبال کیا۔
بعدازاں، وہ ریلی کی شکل میں بانی پاکستان، محمد علی جناح کے مزار پر حاضری کے لئے روانہ ہوگئے۔
وسیم اختر پر مجموعی طور پر 39 مقدمات قائم ہیں اور یہ سب ابھی زیر سماعت ہیں۔ تاہم، تمام مقدمات میں ان کی ضمانت منظور ہو چکی ہے۔
انہیں بدھ کو دہشت گردوں کے علاج میں سہولت فراہم کرنے کے الزام میں زیر سماعت مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پانچ لاکھ روپے مچلکے اور پاسپورٹ جمع کرانے کے عوض ضمانت دی گئی۔
وسیم اختر کو 19 جولائی کو دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں ضمانت قبل از گرفتاری مسترد ہونے کے بعد دیگر اہم شخصیات کے ہمراہ احاطہ عدالت سے حراست میں لیا گیا تھا۔
زیر حراست ہی انہوں نے کراچی کے مئیر کے عہدے کا حلف لیا اور واپس جیل روانہ کردیئے گئے۔
اپنے عہدے کی ذمے داریاں پوری کرنے کی غرض سے انہوں نے عدالت سے جیل میں دفتر قائم کرنے کی درخواست بھی کی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
ضمانت منظور ہونے کے موقع پر وسیم اختر نے میڈیا نمائندوں سے مختصر ملاقات میں کہا کہ ’’خوشی کی بات ہے کہ آج میں رہا ہو رہا ہوں‘‘۔
اس سوال پر کہ حکومت نے آپ کی رہائی سے ایک روز قبل آپ کی تنخواہ 50 ہزار روپے مقرر کردی ہے، وسیم اختر نے جواب دیا کہ ’’تنخواہ آج ہی جا کر نکلواؤں گا۔ ادھار لے لے کر ضمانتوں کی رقم پوری کی ہے۔‘‘
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی طویل سیاسی جدوجہد پر ایک کتاب لکھیں گے۔ تاہم، ابھی اس میں وقت لگے گا۔
لاٹھی چارج، تلخ کلامی، گرفتاریاں اور ہنگامہ آرائی
سینٹرل جیل کراچی سے رہائی کے بعد وسیم اختر کو ٹرک پر سوار کرکے بڑی ریلی کی شکل میں مزار قائد لے جایا گیا۔ قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار، سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن، ڈپٹی میئر ارشد وہرہ، رؤف صدیقی، ڈپٹی کنوینر عامر خان اور رکن سندھ اسمبلی فیصل سبزواری سمیت کئی رہنما بھی ان کے ہمراہ تھے۔
وسیم اختر نے مزار قائد پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔ اس حاضری کے بعد ریلی کے شرکا یادگار شہداء عزیزآباد پر حاضری کیلئے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پہنچے جہاں ایم کیو ایم لندن اور پاکستان کے کارکن آمنے سامنے آگئے۔
اس دوران لندن کے کارکنوں کی جانب سے زبردست نعرے بازی کی گئی اور متحدہ پاکستان کے اراکین اسمبلی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
صورتحال کشیدہ ہونے پر پولیس نے ایم کیو ایم لندن کے کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا اور متعدد کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔
کشیدگی کے پیش نظر پولیس و رینجرز نے ریلی کو اللہ والی چورنگی پر یادگار شہداء جانے سے روک دیا، اور یوں شرکا حاضری دیئے بغیر ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز یعنی پی آئی بی کالونی روانہ ہوگئے، جہاں میئر کراچی کا پرتپاک استقبال کیا گیا، پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور مٹھائی تقسیم کی گئی۔