متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور کراچی کے نامزد میئر وسیم اختر اور رؤف صدیقی جبکہ پاک سر زمین پارٹی کے رہنما انیس احمد قائم خانی کو کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے حکم پر منگل کی سہ پہر گرفتار کر لیا گیا۔
ان رہنماؤں پر الزام ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں کے علاج میں معاونت کی تھی۔ انہی کے کہنے پر بدعنوانی کیس میں کئی ماہ سے زیر حراست سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کے اسپتال میں دہشت گردوں کا علاج کیا جاتا تھا۔
مذکورہ تینوں رہنما کئی ماہ سے عبوری ضمانت پر تھے۔ پیر کو ضمانت میں مزید توثیق کے لئے درخواست دی گئی تھی۔ تاہم، عدالت نے درخواست مسترد کردیا جس کے نتیجے میں ان رہنماؤں کو گرفتار کرکے سینٹرل جیل منتقل کردیا جبکہ کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
عبدالقادر پٹیل کا عدالت سے ‘فرار‘
اسی کیس کے ایک ملزم اور پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل مقدمے کی سماعت کے وقت عدالت کے باہر تھے۔ تاہم، جیسے ہی انہیں ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کی اطلاع ملی وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھے اور واپس چلے گئے۔ تاہم، کچھ گھنٹوں بعد انہوں نے از خود بوٹ بیسن تھانے میں گرفتاری پیش کر دی۔
حراست میں لئے گئے رہنماؤں کو کمرۂ عدالت کے باہر کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا۔ بکتر بند گاڑی میں بٹھایا گیا اور سخت سیکورٹی حصار میں سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔
ادھر قادر پٹیل نے عدالت سے فرار کےبیانات کو رد کرتے ہوئے میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں بتایا کہ جس وقت وہ عدالت پہنچےتو کورٹ کے دروازے بند تھے اور پولیس نے انہیں اندر نہیں جانے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں سیاسی کارکن ہوں، حالات جیسے بھی ہوں سامنا کروں گا، بھاگنے والا نہیں۔ رینجرز کے خط پر ہی لندن سے آیا ہوں پھر فرار کیوں ہوں گا۔‘‘
دوسری جانب مقدمہ کی سماعت اور گرفتاری سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما وسیم اختر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عدالت میں پیش ہونے کیلئے کل لندن سے واپس آیا ہوں۔ وکلاء ان کی ضمانت کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کریں گے لیکن وکلاء کو ہائیکورٹ جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔
بقول اُن کے، ’’جھوٹی اور جعلی جے آئی ٹی کی بنیاد پر درخواست ضمانت مسترد کی گئی‘‘۔