گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
نماز ِجمعہ سے فراغت کے بعد میں فاطمہ کے ہمراہ نمازیوں کے پیچھے چل پڑی جو مسجد ِاقصیٰ کے احاطے سے باہر نکل رہے تھے۔ باہر بہت رونق لگی تھی، چھابڑی اور پھل فروش قدم قدم پر دکانیں سجائے بیٹھے تھے اور گاہکوں کے انتظار میں تھے۔ نمازی اپنی اپنی ضرورت کے مطابق گھر جانے سے پہلے کسی چھابے سے خُبز (عربی روٹی) خرید رہے تھے تو کہیں پھل کی خریداری کی جا رہی تھی۔۔۔ میرے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ نہ صرف مرد حضرات بلکہ خواتین نے بھی مختلف اشیاء کی چھابڑیاں لگا رکھی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم باب الاسباط پہنچ گئے جہاں عبدالقادر ہمارا منتظر تھا۔
ہماری اگلی منزل ’جبل الزیتون‘ یا Mount of Olives تھا۔ یہ یروشلم کے مشرق میں واقع ایک پہاڑی ہے اور اس کا نام جبل الزیتون (زیتون کا پہاڑ) اس نسبت سے پڑا کہ یہاں کسی زمانے میں زیتون کے درخت بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ جبل الزیتون وہ مقام یا پہاڑ ہے جو یروشلم شہر کو صحرائے یہودا سے الگ کرتا ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے سے مشرقی سرحد کے طور پر یروشلم کی نگہبانی کرتا چلا آ رہا ہے۔
پہاڑیوں پر آباد یروشلم شہر کے مکمل اور خوبصورت نظارے کے لیے یہ جگہ بہترین ہے۔ اونچی فصیلوں کے دامن میں پھیلا قدیم یروشلم شہر، بل کھاتی سڑکیں، سرسبز درختوں کے آنچل میں کسی موتی کی طرح جگمگاتا گنبد ِصخرہ اور گنبد ِصخرہ کے اُس پار دکھائی دیتی فلک بوس عمارتیں۔ ’جبل الزیتون‘ پر کھڑے ہو کر دائیں سے بائیں جانب نگاہ دوڑائیں تو اس شہر کا خوبصورت نظارہ کہیں سے بھی یہ تاثر نہیں دیتا کہ ابراہیمی مذاہب کی مقدس یادگاروں کے امین اور کئی مرتبہ اجڑ کر آباد ہونے والے ’یروشلم‘ کا حال بھی اتنا ہی پیچیدہ اور خون آلود ہے جتنا کہ اس شہر کی خاک و خون میں لتھڑی تاریخ۔
جبل الزیتون سے نیچے کی طرف دیکھیں تو پہلا منظر ایک بڑے قبرستان کا ہے۔ میری نظرچند یہودیوں پر پڑی جو مختلف قبروں کے سرہانے کھڑے دعائیں مانگنے کے ساتھ ساتھ اپنی مقدس کتاب تورات کی تلاوت میں مصروف تھے۔ معلوم ہوا جبل الزیتون دنیا بھر میں یہودیوں کے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہے اور یہودی یہاں پر زمانہ ِبابل (ساتویں صدی قبل از مسیح) سے ہی دفن ہونا اعزاز سمجھتے آئے ہیں۔ یہودی عقیدے کے مطابق قیامت کے دن رب کا ظہور اسی پہاڑ پر ہوگا۔ یہودیوں کو یہاں ایسے دفنایا جاتا ہے کہ ان کے پیر ہیکل ِسلیمانی کی طرف ہوتے ہیں تاکہ قیامت کے دن جب حضرت ِ انسان کو دوبارہ زندہ کیا جائے تو انہیں ہیکل ِسلیمانی کی طرف چل کر جانے میں کوئی دقت نہ ہو۔
جبل الزیتون کی اہمیت عیسائیت میں بھی کم نہیں، عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی کی آخری شب اسی پہاڑ کے قریب واقع کلیسہ ِآلام (Church of all nations) میں عبادت کرکے گزاری تھی اور یہیں سے انہیں مختلف راستوں سے گزارتے ہوئے کنیسہ القائمہ (Church of Holy Sepulchre) لے جایا گیا تھا جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا۔ آج بھی مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے جبل الزیتوں پر پیدل چڑھتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں اسی راستے پر چلتے چلتے کنیسہ القائمہ پہنچتے ہیں۔ ان کے لیے یہ پرآشوب مقام ہے جہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو صعوبتوں سے گزارا گیا اور ان کی والدہ بی بی مریم نے یہ اذیت ناک لمحات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول جبل الزیتون پر ہوگا جہاں سے وہ یروشلم کی طرف جائیں گے۔
جبل الزیتون کی سڑک پر ہی ڈھلان اترتے ہوئے حضرت مریم کا مرقد ہے جسے Church of Mary کہا جاتا ہے۔۔۔ جبل الزیتون سے فارغ ہو کر ہم بی بی مریم کے مرقد کی طرف چل پڑے۔ مسیحی عقیدے کے مطابق بی بی مریم اپنی نیند کے دوران خدا سے جا ملی تھیں۔ اسی غار میں آدھی سیڑھیاں اتر کر سیدھے ہاتھ پر حضرت مریم کے والدین حضرت عمران علیہ السلام جنہیں مسیحی عقیدے میں Joachim کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور حضرت مریم کی والدہ کی قبور ِمبارکہ بھی موجود ہیں۔ سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دائیں ہاتھ پر بی بی مریم کا مرقد ہے۔ میں یہاں پر ایک لمبی قطار کا حصہ بن گئی۔ عیسائی خواتین نے عقیدت کی وجہ سے اپنے سروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ بی بی مریم کی قبر کے گرد شیشے کی دیوار بنائی گئی ہے۔ اس قبر میں ایک جگہ پر سوراخ ہے جو بی بی مریم کی جنت کی طرف روانگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔۔۔
دوپہر کے ساڑے تین بج چلے تھے، میں نے عبدالقادر سے فرمائش کی کہ مجھے یروشلم کے قدیم شہر کی گلیوں میں گھومنا ہے جہاں میں تخیل کے زور پر نہ جانے کتنی مرتبہ بھٹک چکی ہوں۔ عبدالقادر نے یہ مشن اپنے 15 سالہ بیٹے وسیم کے سپرد کیا اور میں اس کے ساتھ چل پڑی۔ وسیم کالج کے سال ِاول کا طالبعلم ہے، خواب بڑے ہیں مگر باتیں اس سے بھی بڑی ہیں۔
یروشلم کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے، ’عروسیلما‘ کو اس شہر کا اولین نام بتایا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق یروشلم کم از کم دو مرتبہ مکمل طور پر تباہ ہو کر آباد ہوا، 23 مرتبہ اس کا محاصرہ کیا گیا اور اس شہر نے تقریبا 52 حملوں کا سامنا کیا۔ اس خونریز تاریخ کے باوجود آج یہ شہر پوری تابناکی کے ساتھ کھڑا ہے اور تین ابراہیمی مذاہب کی مقدس تاریخ کا امین ہے۔ پیچیدہ تاریخ اور تلخ حال کے باوجود سیاحوں کی بڑی تعداد ہر برس یہاں آتی ہے۔ اسرائیلی وزارت ِسیاحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2013ء میں تقریبا 35 لاکھ سیاحوں نے یروشلم کا رخ کیا۔
قدیم یروشلم کی اونچی فصیلیں 2.4 میل کے فاصلے کا احاطہ کرتی ہیں جبکہ اس قدیم شہر کے سات دروازے ہیں جس سے لوگ تاریخ کے جھروکوں میں داخل ہوتے ہیں۔ قدیم شہر چار کوارٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مسلمان کوارٹر، آرمینین کوارٹر، عیسائی کوارٹر اور یہودی کوارٹر۔ 1948ء میں عرب اسرائیل جنگ میں یروشلم کے قدیم شہر کا کنٹرول اردن نے حاصل کرکے یہاں سے تمام یہودیوں کو بے دخل کر دیا تھا۔ مگر 1967ء میں چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت قدیم شہر کا کنٹرول واپس حاصل کر لیا اور آج بھی اسرائیلی فوج ہی اس پورے علاقے کی نگرانی کرتی ہے۔ ہم آرمینین کوارٹر سے قدیم شہر کے اندر داخل ہوئے، یہ قدیم شہر نسبتا تنگ مگر صاف ستھری گلیوں (ہمارے اندرون شہروں کی گلیوں سے نسبتا کھلی اور چوڑی گلیاں) میں آباد ہے۔ وسیم مجھے آرمینین کوارٹر کے اوپر واقع چھت پر لے گیا جہاں سے قبتہ الصخرہ کا حسین نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں پر چند لمحے ٹھہر کر ہم مسلم کوارٹر کی جانب بڑھے جسے عربی میں حارة المسلمین کہا جاتا ہے۔ جگہ جگہ چوکیاں بنی ہیں جہاں پر اسرائیلی اور کہیں کہیں اسرائیلی عرب فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔
“مسلم کوارٹر 76 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہاں 22 ہزار کے لگ بھگ مسلمان آباد ہیں۔ یہاں پر چند یہودی خاندان بھی بستے ہیں اور مسلم کوارٹر میں ہی یہودیوں کی تورات کی تعلیم کا سب سے بڑا ادارہ تورات چیم یشیوا بھی موجود ہے”۔ وسیم ایک مدبر سفری رہنما کی طرح مجھے ہر گلی کوچے کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا تھا۔ دکانوں کے باہر گاہکوں کا ہجوم تھا اور خرید و فروخت جاری تھی۔ بالکل پاکستان والا حساب۔ وہی بھاؤ تاؤ کے طریقے۔ وہی دکانداروں کی پیچھے سے آتی صدائیں اور وہی خواتین و حضرات کے دام کم کرانے کے داؤ پیچ۔ ایک لمحے کو تو یوں لگا جیسے اسلام آباد کے اتوار بازار یا پھر لاہور کے اچھرہ بازار میں آگئی ہوں۔
میری عادت ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک یا شہر جا کر وہاں سے وابستہ چیزیں بطور یادگار لیتی ہوں۔ وسیم مجھے ایک دکان میں لے گیا جہاں یروشلم سے متعلق برتن، مقناطیس، قمیضیں، کی رنگز اور دیگر کئی چیزیں موجود تھیں۔ میں نے اپنے اور گھر والوں کے لیے کچھ اشیاء خریدیں۔ مسلم کوارٹر کی ان دکانوں میں چیزوں کی ورائٹی تو بہت ہے مگر یہاں پر اچھی کوالٹی کی چیز ڈھونڈنا مشکل ہے۔ مغرب کا وقت ہو چلا تھا، میں نے مزید خریداری کے ارادے کو خیر باد کہہ کر ہوٹل کی راہ لی۔ ہوٹل پہنچی تو دیکھا کہ نیچے استقبالیے پر چند یہودی ایک میز پر موم بتیوں کے ارد گرد دعا مانگنے میں مصروف تھے۔ معلوم ہوا ہفتے کے روز اسرائیل میں ’شابات‘ منایا جاتا ہے۔ جس کی ابتدا جمعے کی شب شروع ہوجاتی ہے۔ یہ عبادت اسی سلسلے میں کی جا رہی تھی۔
جاری ہے۔۔۔