فلوجہ میں جنگ سے بھاگنے والے خاندانوں کا کہنا ہے کہ داعش فائرنگ کے تبادلے کے دوران انہیں ان کے گھروں سے زبردستی نکال کر ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل کرتی رہی۔
سعود نامی ایک خاتون نے بتایا کہ ’’ہم نے اپنے گھر واپس جانے کی کوشش کی مگر ہم نے بہت سے دوسرے خاندانوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا تو ہم ان کے ساتھ ہو لیے۔‘‘
پناہ گزینوں کو امداد فراہم کرنے والی نارویجیئن ریفیوجی کونسل کے مطابق، سعود، ان کے شوہر علی اور ان کے چھ بچے 25 مئی کو فلوجہ سے 30 کلومیٹر دور العراق کیمپ پہنچے تھے۔
عراقی فورسز نے اتحادی فضائی اور شیعہ ملیشیا کی مدد سے فلوجہ کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ اطلاع ہے کہ انسداد دہشت گردی کے یونٹس پیر کو شہر میں داخل ہو گئے تھے۔
چھ ماہ قبل فلوجہ سے بھاگنے والے جابر محمد اودا کا کہنا ہے کہ داعش کے قبضے میں فلوجہ ایک بڑے قید خانے میں بدل گیا تھا۔
جابر نے العراق کیمپ سے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’وہ کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ہم جانوروں کی طرح رہتے تھے۔‘‘
’’انہوں نے ہم سے سب کچھ چھین لیا۔ وہ (شہر) ایک بہت بڑے قید خانے کی طرح تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ’اگر تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ، تمہارے اہل خانہ یہیں رہیں گے۔‘‘
جابر نے مزید بتایا کہ ’’داعش نے بچوں اور لڑکوں کو مسجدوں میں روک لیا اور کہا کہ اگر تم ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ گے تو تم اور تمہارے اہل خانہ بہت بہتر حال میں ہوں گے۔ ہر جمعے وہ مجھے مسجد جانے اور اپنی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کرتے۔‘‘
جابر محمد اودا نے کہا کہ جو مرد اپنی داڑھی اور موچھیں منڈواتے انہیں سو کوڑے مارے جاتے۔ اس سال کے اوائل میں شمالی شہر موصل سے بھاگنے والے خاندانوں نے بھی ایسی ہی تفصیلات کی تصدیق کی۔
اگرچہ بہت سے غیرملکی جنگجو داعش میں شامل ہیں مگر جابر اودا نے کہا کہ انہوں نے فلوجہ صرف عراقی شدت پسندوں کو ہی دیکھا ہے۔
عراق میں نارویجیئین ریفیوجی کونسل کی کوآرڈینیٹر بیکی بکر عبداللہ نے کہا ہے کہ 530 خاندان جنگ سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پیر کو صرف ایک خاندان شہر کے وسط سے نکلنے میں کامیاب ہوا جہاں اس وقت شدید جنگ جاری ہے۔
انسانی امداد کے اداروں نے جنگ کے تمام فریقین سے بار بار پوچھا ہے کہ وہ شہریوں کو جنگ سے دور محفوظ راستہ فراہم کریں۔
اندازہ ہے کہ اس وقت شہر میں لگ بھگ پچاس ہزار شہری پھنسے ہوئے ہیں۔
بیکی عبداللہ نے کہا کہ ’’جس سے بھی میں نے بات کی ہے اس نے مجھے یہی بتایا ہے کہ وہ کھجوروں اور دریا ہے پانی پر زندہ ہیں۔ وہاں نہ کوئی دوا ہے، نہ ایندھن، نہ بجلی۔ لوگ گھروں کے اندر ہی رہ رہے ہیں۔ صورتحال بہت خراب ہے۔‘‘