پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کے موجودہ معاشی مسائل کا ذمے دار عمران خان کی سابق حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بدترین حکمرانی کی وجہ سے سابق حکومت ویسے ہی تباہی کی جانب جارہی تھی۔ ایسے میں اپوزیشن نے سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کا فیصلہ کیا جس کی قیمت ہمیں ادا کرنا پڑرہی ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں وائس آف امریکہ کو دیے گئےخصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی تاریخی مہنگائى میں امپورٹڈ مہنگائى (ان اشیا کا مہنگائى میں حصہ جو پاکستان کو درآمد کرنا پڑتی ہیں) کا بڑا ہاتھ ہے اور اگر ڈالر کی قیمت کو اس کی اصل قد ر پر لایا جائے تو مہنگائی میں خاطر خواہ کمی ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی توجہ تین سے چار اہم نکات پر ہے جس میں طرزِ حکمرانی کو بہتر کرنے کے ساتھ کرنسی کی قیمت کو مستحکم کرنا اولین مقصد ہے۔
اسحاق ڈار کے بقول روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 200روپے سے نیچے بنتی ہے، پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں استحکام کے لیے وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقات کرے گا تاکہ ڈالر کو 200 روپے سے نیچے لایاجاسکے۔
وزیرِ خزانہ نے مزید کہا کہ سٹے بازوں نے کرنسی کے ساتھ غیر حقیقی سلوک کیا ۔ ڈالر کی قیمت بڑھانے میں جن بینکوں یا کاروباری اداروں نے سٹے بازی سے کام لیا ہے ان کے خلاف بھی ایکشن ہو گا۔
پاکستان کا عالمی مالیاتی ادارے ( آئى ایم ایف) کے ساتھ موجودہ قرض پروگرام اتحادی حکومت کی طرف سے کی گئى ایک ایکسٹینشن کے بعد اگلے سال جون میں پورا ہو رہا ہے۔ تاہم ملک میں حالیہ سیلاب کے بعد آئی ایم ایف نے اس تشویش کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان قرضوں کی معافی اور اس کی ری شیڈولنگ کے لیے پیرس کلب جائے گا۔
آئی ایم ایف کی تشویش پر بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ انہوں نے اپنےحالیہ دورۂ امریکہ میں یہ غلط فہمی دور کر د ی ہےاور پاکستان تمام قرضے بروقت ادا کرے گا۔
واضح رہے کہ پیرس کلب ان ممالک کا گروپ ہے جو بڑے قرض دہندگان ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کو قرض فراہم کرتے ہیں۔ اس گروپ کا کام قرض دار ممالک کو قرضوں کی ادائیگی میں درپیش پیچیدگیوں اور مشکلات کو دور کرنا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کو اپنی توانائى کی ضرویات پورا کرنے کے لیے اگر روس سے تیل اسی قیمت پر ملتا ہے جس پر بھارت حاصل کر رہا ہے تو پاکستان روس سے توانائى درآمد کر سکتا ہے جس پر مغرب کو کوئى اعتراض نہیں ہو گا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائن ملاقاتوں میں روسی حکام سے تیل کی درآمد پر بات کی تھی۔ اس سے قبل تحریکِ انصاف کی حکومت نے بھی اس سلسلے میں روس سے رابطہ کیا تھا۔
'پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا'
وفاقی وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کو پورا کرے گا اور اس پر مزید کوئى مذاکرات نہیں ہوں گے اور پاکستان اپنے بانڈز کی بھی مکمل ادائیگیاں کرے گا۔ تاہم اگر بانڈز رکھنے والے بڑے اداروں نے پاکستان کو سیلاب کی وجہ سے کچھ ریلیف دینے پر رضامندی ظاہر کی تو ان سے بات کی جاسکتی ہے۔
دورہ امریکہ سے قبل اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اپنی بیرونی ادائیگیاں وقت پر کرے گا اور کسی بھی عالمی ادارے سے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی درخواست نہیں کرے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اکتیس اکتوبر کو ختم ہونے والےآئی ایم ایف کے اجلاس کے بعد پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے بھی نکل جائے گا اور اگر کچھ معمولی نوعیت کے مسائل رہ جائیں تو انہیں بھی آسانی سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول، "سیلاب زدہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ جنرل اسمبلی اجلاس کی سائڈ لائن ملاقاتوں میں آئى ایم ایف کی سربراہ سے موجودہ آئى ایم ایف پروگرام میں تین ماہ کے لیے سبسڈیز اور ریلیف کی درخواست کی تھی جس کی منظوری کا پاکستان کو انتظار ہے۔
پاکستان میں سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں سے متعلق سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں نےپاکستان میں شدیدبارشوں سے آنے والے حالیہ سیلاب سے 32 ارب 40 کروڑ ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے اور پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کی تعمیرِ نو کے لیے تقریباً 16 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
'پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا اب کوئی خطرہ نہیں'
واشنگٹن ڈی سی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بھی اسحاق دار کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پاکستان کی معیشت کو بہت حد تک سنبھال چکی ہے اور پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا اب کوئى خطرہ نہیں۔
وفاقی وزیرِ خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا حالیہ دورہ کسی اقتصادی ریلیف کے لیے نہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان پر اعتماد بحال کرنے کے لیے تھا۔
امریکہ کے ایک معتبر تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے منسلک ماہر معیشت عزیر یونس نے اسحاق ڈار کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے لیے کسی عالمی ادارے سے درخواست نہ کرنے کے دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن سمجھتا ہے کہ پاکستان کو سب سے پہلے اپنے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے لیے چین سے بات کرنی چاہیے کیوں کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں سب سے زیادہ حصہ چین کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کو روپے کے مقابلےمیں 200روپے تک رکھنے پر آئى ایم ایف اور ملٹی لیٹرل ڈونرز کو تحفظات ہو سکتے ہیں اور اگر مصنوعی طور پر ایسا ہو جاتا ہے تو اس سے پاکستان کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے مالی مدد لینا مشکل ہو سکتا ہے۔