رسائی کے لنکس

جب نمک، داڑھی اور قبر پر بھی ٹیکس لگتا تھا


جب بھی کسی ملک کی حکومت بجٹ کا اعلان کرتی ہے تو سب سے زیادہ جو معاملہ بحث اور توجہ کا مرکز بنتا ہے وہ ہے محصولات یعنی ٹیکسز۔

زیادہ ٹیکسوں کی شکایت کرنی ہو تو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حکومت کا بس چلے تو سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد کر دے۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ دنیا میں کچھ ایسے ٹیکس بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں جو اس شکایت کے قریب قریب تھے۔

ٹیکس جیسا بھی ہو، لوگوں پر بھاری ہی پڑتا ہے۔ لیکن بعض مرتبہ حکومتیں اپنے معاشی اہداف یا پالیسیوں کے نفاذ کے لیے ٹیکس سے متعلق ایسے فیصلے بھی کرتی ہیں جو عجیب و غریب یا دل چسپ معلوم ہوتے ہیں۔

آئیے آپ کو حالیہ اور قدیم تاریخ سے چند ایسے ہی منفرد، عجیب و غریب اور دل چسپ نوعیت کے ٹیکس قوانین کے بارے میں بتاتے ہیں:

قبر پر ٹیکس

ٹیکس یا محصول اس دور میں بھی وصول کیا جاتا تھا جب آج کے دور کی طرح روپے پیسے یا کرنسی کا وجود بھی نہیں تھا۔

نیشنل جیوگرافک کے مطابق موجودہ عراق میں پائی جانے والی قدیم میسوپوٹیمیا کی تہذیب میں مردے کی تدفین پر ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ یہ ٹیکس بیئر کے سات ڈرم، 420 روٹیاں، ایک بکری، اناج کی دو بوریاں یا ایک بستر بھی ہوسکتا تھا۔

اس کے علاوہ حکومت دیگر اشیا اور خرید و فروخت پر بھی ٹیکس وصول کرتی تھی جس کے تحت ٹیکس دہندہ کو اجناس، مویشی، دھات یا شراب وغیرہ کی صورت میں اشیا سرکاری مال خانے میں جمع کرانا ہوتی تھیں۔

پیشاب پر ٹیکس

امونیا کی بھاری مقدار کی وجہ سے قدیم روم میں انسانی پیشاب کو کپڑے دھونے، صفائی اور حتیٰ کہ دانت چمکانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

پیشاب جمع کرنے کے لیے عوامی بیت الخلاؤں میں بڑے بڑے ڈرم رکھے جاتے تھے اور پیشاب اکھٹا کرنے کے بعد اسے فروخت کردیا جاتا تھا۔

قدیم رومی مصنف سیوتونیئس نے اپنی کتاب ’دی لائیوز آف سیزرز‘ میں لکھا ہے کہ 79 تا 69 قبلِ مسیح کے دوران فرماں روا وسپیزیئن نے اس تجارت پر ٹیکس عائد کردیا تھا۔

کتاب میں لکھا ہے کہ روم کے امرا اور شاہی حکام اس ٹیکس کو انتہائی ناگوار تصور کرتے تھے۔ اس لیے جب اس مد میں ٹیکس وصولی کا آغاز ہوا تو وہ ناک بھوں چڑھایا کرتے تھے۔

کھڑکی بنانے پر ٹیکس

آج جب ٹیکسوں میں اضافے کی شکایت کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ حکومت کا بس چلے تو وہ ہوا پر بھی ٹیکس عائد کر دے۔ ہوا پر تو نہیں، لیکن ایک دور میں برطانیہ میں ان کھڑکیوں پر ٹیکس عائد کردیا گیا تھا جن سے ہوا آتی ہے۔

برطانیہ میں قانون سازی کی تاریخ اور معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ ’پارلیمنٹ ڈاٹ یوکے‘ کے مطابق کھڑکی ٹیکس 1696 میں عائد کیا گیا تھا۔ اس کے تحت جن مکانوں میں10 سے زائد کھڑکیاں ہوتی تھیں انہیں اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔

اس ٹیکس کا بنیادی مقصد شہری آبادی میں بڑے گھروں سے زیادہ ٹیکس وصول کرنا تھا۔ لیکن اس سے کئی پیچیدگیوں نے جنم لیا۔ شہروں میں عام طور پر لوگ علیحدہ علیحدہ بڑے مکانات کے بجائے بڑی عمارتوں کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں رہتے تھے۔چوں کہ یہ ٹیکس مالک مکان سے وصول کیا جاتا تھا، اس لیے ٹیکس سےبچنے کے لیے عمارتوں کے مالکان نے کھڑکیاں بند کرنا شروع کردی تھیں۔

’پارلیمنٹ ڈاٹ یو کے‘ کے مطابق قانون میں ’کھڑکی‘ کی تعریف بھی واضح طور پر نہیں کی گئی تھی۔ اس لیے کئی مرتبہ حکام چھوٹے روشن دانوں یا دیوار میں پڑنے والے چھوٹے بڑے شگافوں پر بھی ٹیکس کا مطالبہ کرتے تھے۔

سن 1766 میں اس قانون کے تحت سات کھڑکیوں والے گھروں کو بھی ٹیکس کے دائرے شامل کر دیا گیا۔ اس ٹیکس کے باعث لوگ کم کھڑکیاں بنانے لگے تھے۔جس کے نتیجے میں عمارتوں میں ہوا اور روشنی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی صحت متاثر ہونے لگی اور ایک وقت آیا جب اس ٹیکس کی مخالفت بڑھنے لگی۔

انتہائی غیر مقبول ٹیکس ہونے کے باجود اس کا خاتمہ طویل قانونی جنگ اور عوامی مہم کے بعد 1851 میں ہی ہو سکا۔

داڑھی پر ٹیکس

ایک دور تھا جب دنیا کے بعض حصوں میں داڑھی کو عیش و عشرت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور اسی لیے اس پر باقاعدہ ٹیکس بھی عائد کیا جاتا تھا۔

روس میں داڑھی پر ٹیکس کے تاریخی شواہد ملتے ہیں جن کے مطابق 1698 میں روس کے حکمران پیٹر اول نے داڑھی رکھنے والوں پر اضافی ٹیکس عائد کردیا تھا۔

قانونی امور پر تحقیقی مواد شائع کرنے والے جریدے ’دی گرین بیگ‘ کے ایک مضمون کے مطابق پیٹر اول کی جانب سے یہ ٹیکس عائد کرنے کے کئی اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ پیٹر اول روس کی سوسائٹی کو یورپی کلچر سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔

اس کے علاوہ وہ داڑھی رکھنے کو قدامت کی علامت سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کے دربار میں کسی شخص کو داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی اور کئی مواقع پر ایسا بھی ہوا کہ ان کے سامنے کوئی باریش شخص آیا تو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی داڑھی مونڈھ دی۔

روس میں عیسائیت کے آرتھوڈوکس فرقے کے مذہبی پیشوا بھی داڑھی رکھتے ہیں۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ پیٹر اول کے چرچ کے ساتھ اختلافات بھی یہ ٹیکس عائد کرنے کی ایک وجہ تھے۔

پیٹر اول نے پہلے داڑھی پر مکمل پابندی عائد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس پر انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیےحوصلہ شکنی کے لیے زارِ روس نے داڑھی رکھنے پر ٹیکس عائد کر دیا۔ دربارِ شاہی اور فوج سے تعلق رکھنے والوں پر 60 روبل سالانہ داڑھی ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ اسی طرح دولت مند افراد کے لیےیہ شرح 100 روبل سالانہ تھی۔

ماسکو کے شہریوں کو داڑھی پر 30 روبل ادا کرنے پڑتے تھے جب کہ شہر کے باہر سے اجناس وغیرہ فروخت کے لیے آنے والے باریش افراد کو ہر مرتبہ شہر میں داخلے پر نصف کوپک (پیسہ) داڑھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ یہ ٹیکس ادا کرنے والوں کو ثبوت یا ٹیکس ادائیگی کے سرٹیفکیٹ کے طو پر دھاتی ٹوکن بھی دیا جاتا تھا۔ ایسے بعض ٹوکن آج بھی روس کے عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔

بعض مؤرخین نے برطانیہ میں سولہویں صدی کے دوران ہنری ہشتم کے دور میں داڑھی ٹیکس عائد کیے جانے کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن اس کے تاریخی شواہد نہیں ملتے۔ البتہ فرانس میں بھی ایسا ہی ایک ٹیکس عائد کیے جانے کے شواہد دستیاب ہیں۔

نمک پر ٹیکس

برِصغیر میں برطانیہ کی حکومت نے زیادہ سے زیادہ محصولات اکھٹے کرنے کے لیے کئی سخت قوانین بنائے تھے۔ 1882 میں نافذ کیا گیا ’سالٹ ایکٹ‘ بھی ایسا ہی قانون تھا جس میں ہندوستانی شہریوں پر نمک کی کان کنی یا اسے فروخت کرنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

برِصغیر میں چٹانی نمک کے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں اور نمک یہاں کی روز مرہ خوراک کا لازمی جزو رہا ہے۔ لیکن انگریز حکومت نے نہ صرف ہندوستانیوں کے لیے نمک کا کاروبار کرنے پر پابندی عائد کردی تھی بلکہ اضافی ٹیکس عائد کرکے اس پر برطانوی حکومت کی اجارہ داری قائم کردی تھی۔ اس ٹیکس کی وجہ سے اپنے ہی ملک سے نکلنے والا نمک ہندوستان کے باشندوں کو مہنگے داموں خریدنا پڑتا تھا۔

موہن داس گاندھی 1915 میں جنوبی افریقہ میں شہری حقوق کی جدوجہد کرنے کے بعد ہندوستان واپس آچکے تھے۔ انہوں نے برطانوی حکومت کے اس قانون کی مخالفت شروع کی اور اس کے خلاف ’ستیہ گرہ‘ یا سول نا فرمانی کا آغاز کیا۔

مہاتما گاندھی نے 1930 میں سالٹ ایکٹ کے خاتمے کے لیے 240 میل طویل مارچ کیا۔ اس دوران گاندھی کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اس عوامی مہم کی وجہ سے گاندھی کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی اور انہیں برطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا اہم سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے۔ بعدازاں مارچ 1947 میں عبوری حکومت نے سالٹ ٹیکس کا خاتمہ کردیا۔

مرغن خوراک پر ٹیکس

غذائی عادات اور طرزِ زندگی کی وجہ سے مٹاپا دنیا بھر میں صحتِ عامہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ وزن میں اضافے اور موٹاپے سے ذیابیطس، امراضِ قلب اور ہائی بلڈ پریشر سمیت دیگر کئی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

ان بیماریوں کی وجہ سے صحتِ عامہ کے نظام کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی بات کوبنیاد بنا کر بعض ممالک میں زیادہ کیلوریز اور چکنائی والے تیار شدہ کھانے پینے کی اشیا پر ٹیکس بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

ڈنمارک نے 2011 میں 2.3 فی صد سے زیادہ ’سیچوریٹڈ فیٹ‘ (سیر شدہ چکنائی) کی مقدار رکھنے والے دودھ، مکھن، پنیر اور پراسیسڈ فوڈ پر ٹیکس عائد کیا تھا۔ روزمرہ استعمال کی کئی غذائی اشیا بھی اس ٹیکس کے دائرے میں آگئی تھیں۔

اس ٹیکس کے نتیجے میں حکومت کی آمدنی میں اضافہ تو ہوا لیکن عوام کے غذائی عادات میں تبدیلی نہیں آئی۔ ڈنمارک کی حکومت نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے 2012 میں ’فیٹ ٹیکس‘ کا خاتمہ کردیا۔

آن لائن جریدے ’میڈیم‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ٹیکس کو ختم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس ٹیکس کے باعث مہنگائی کی وجہ سے کئی ڈینش شہری سرحد پار کرکے جرمنی اور سوئیڈن سے خریداری کرنے لگے تھے جس کی وجہ سے ڈنمارک کے اندر ریٹیل کاروبار متاثر ہو رہا تھا۔

زیادہ کیلوریز والی غذائی اشیا پر ٹیکس

تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ زیادہ نمک، شکر اور چکنائی والی غذائیں بالخصوص بچوں کے وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ایسی غذاؤں کو ’نان ایسینشل انرجی ڈینس فوڈ‘(این ای ڈی ایف) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ان اشیا میں کیلوریز کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے جو کہ موٹاپے کی بنیادی وجوہ میں شامل ہے۔

شمالی امریکہ کے ملک میکسیکو نے 2014 میں جنک فوڈ کی حوصلہ شکنی کے لیے این ای ڈی ایف ٹیکس متعارف کرایا۔ اس قانون کے مطابق ایسی اشیا جن کے 100 گرام میں 275 کلوکیلوریز ہوں ان پر آٹھ فی صد اضافی ٹیکس عائد کردیا گیا۔ اسی طرح زیادہ شکر والے مشروبات پر بھی فی لیٹر دس فی صد ٹیکس عائد کیا گیا۔

نیشنل لائبریری آف میڈیسن کے مطابق کئی تحقیقی جائزوں سے ثابت ہوا کہ اس ٹیکس کی وجہ سے میکسیکو میں بچوں میں موٹاپے اور وزن کی زیادتی کو روکنے میں مدد ملی۔

بھارت کی ریاست کیرالا کی حکومت نے بھی 2018 میں برگر، سینڈوچ اور پیزا وغیرہ پر ساڑھے 14 فی صد ٹیکس عائد کیا تھا۔

’انگلش‘ پر ٹیکس

بنگلہ دیش کی حکومت نے 08-2007 کے بجٹ میں ملک میں قائم انگریزی میڈیم اسکولوں پر ساڑھے چار فی صد ویلیو ایڈڈ ٹیکس (ویٹ) عائد کر دیا تھا۔

حکومت نے 15-2014 میں اس ٹیکس کی شرح ساڑھے سات فی صد کرنے کی تجویز دی تھی۔ اگرچہ فروری 2017 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ حکومت یہ اضافی ٹیکس وصول نہیں کرسکتی۔ تاہم عدالتی فیصلے کے بعد بھی حکومت نے ٹیکس کی وصولی جاری رکھی۔

مسئلہ حل کریں اور ٹیکس کی چھوٹ پائیں

آج بھی حکومتیں معیشت کے کسی خاص شعبے کو ترقی دینے کے لیے ٹیکس استثنیٰ یا ایمنسٹی کا اعلان کرتی ہیں۔ ہزاروں برس قبل بھارت میں قائم موریہ سلطنت نے بھی ایک منفرد ٹیکس چھوٹ متعارف کرائی تھی۔

ہندوستان میں موریہ خاندان کی سلطنت 321 سے 185 قبلِ مسیح تک قائم رہی۔اسی دور میں ہندوستان کا سفر کرنے والے یونانی سیاح میگاستھینز نے ہندوستان سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ موریہ خاندان کو جب کوئی پیچیدہ مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ اس کا حل نکالنے کے لیے شہریوں میں ایک مقابلہ منعقد کرتے تھے۔

اس مقابلے میں جس شہری کی تجویز مسئلے کے حل کے لیے منظور کی جاتی تھی اسے تاحیات ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا جاتا تھا۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ ٹیکس قوانین کی طرح اس میں بھی ایک سقم یہ تھا کہ ایک بار سے زیادہ کسی حکومتی مسئلے کو حل کرنے والے کے لیے کوئی اور انعام نہیں تھا۔

XS
SM
MD
LG