رسائی کے لنکس

مستقبل کی فلسطینی ریاست میں اسرائیلی فوج موجود رہے گی، نتین یاہو


مستقبل کی فلسطینی ریاست میں اسرائیلی فوج موجود رہے گی، نتین یاہو
مستقبل کی فلسطینی ریاست میں اسرائیلی فوج موجود رہے گی، نتین یاہو

اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ مستقبل میں طے پانے والے کسی بھی ممکنہ امن معاہدے میں یہ بات یقینی بنائی جائے گی کہ مغربی کنارے کے کچھ حصے پر اسرائیل کا فوجی قبضہ بہ ہرصورت برقرار رہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے یہ بات منگل کے روز اسرائیل کے زیرِ قبضہ "وادی اردن" کے نام سے معروف مغربی کنارے کے سرحدی علاقہ کے دورے کے موقع پر کہی۔

اردن کی سرحد سے منسلک مغربی کنارے کے اس علاقہ کو نیتین یاہو نے اسرائیل کو لاحق سلامتی کے خدشات کے خلاف اپنے ملک کی پہلی "دفاعی لائن" بھی قرار دیا۔

اسرائیلی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ "دہشت گردوں" کو ایسے راکٹ اور میزائل اسمگل کرنے سے روکنے کیلیے، جن کے ذریعے پورے اسرائیل کو نشانہ بنایا جاسکے، ضروری ہے کہ دریائے اردن کے ساتھ ساتھ اسرائیلی افواج کی موجودگی کو برقرار رکھا جائے۔

واضح رہے کہ فلسطینی رہنما مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کو کلی حیثیت میں مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ دیکھنا چاہتے ہیں اور ان علاقوں سے اسرائیلی افواج اور آبادکاروں کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

"وادی اردن" کے دورہ کے موقع پر اپنے خطاب میں اسرائیلی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ عرب دنیا میں جاری عوامی مزاحمتی تحریک کے پیشِ نظر بھی اسرائیل کیلیے اس علاقے میں سیکیورٹی کے انتہائی اقدامات برقرار رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے عرب ممالک میں جاری عوامی تحریک کو ایک "سیاسی زلزلہ" قرار دیا۔

اسرائیلی وزیرِاعظم کا مذکورہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی میڈیا میں یہ خبر گرم ہے کہ ان کی حکومت تعطل کا شکار اسرائیل- فلسطین امن مذاکرات کی بحالی کیلیے نئے اقدامات اٹھانے پر غور کررہی ہے۔

امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جنرل" نے منگل کے روز اسرائیلی وزیرِدفاع ایہود بارک سے منسوب ایک بیان شائع کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم نیتن یاہو عارضی سرحدوں پر مشتمل ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کرسکتے ہیں۔

تاہم فلسطینی حکام ایسی کسی بھی تجویز کو پہلے ہی مسترد کرتے آئے ہیں اور مذاکرات کا آغاز صیہونی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں کی جانے والی ہر قسم کی تعمیرات روکنے سے مشروط کرچکے ہیں۔

واضح رہے کہ کئی سال کے تعطل کے بعد امریکی کوششوں سے شروع ہونے والا اسرائیل- فلسطین براہِ راست امن مذاکراتی عمل اپنے آغاز کے کچھ ہی ہفتوں بعد گزشتہ سال ستمبر میں اس وقت ایک بار پھر التواء کا شکار ہوگیا تھا جب اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودیوں بستیوں کی تعمیر پر عائد عارضی پابندی میں توسیع سے انکار کردیا تھا۔

XS
SM
MD
LG