سابق وزیر اعظم نواز شریف کی کابینہ کے وزیر، اسحاق ڈار نے بتایا ہے کہ ''کارگل کے معاملات بگڑتے دیکھ کر خود پرویز مشرف نے نواز شریف سے کہا تھا کہ صدر کلنٹن کو بیچ میں ڈال کر یہ جنگ ختم کرائیں''۔
انھوں نے یہ بات منگل کے روز لندن سے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
بارہ اکتوبر 1999ء کے حوالے سے ایک انٹرویو میں اسحاق ڈار، جو اس وقت کابینہ میں کامرس کے وزیر اور کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا حصہ تھے، بتایا کہ ''وزیر اعظم کے پاس قابل بھروسہ اطلاعات تھیں کہ حکومت کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس لئے انہوں نے پرویز مشرف کو برطرف کرکے نیا آرمی چیف مقرر کردیا۔''
اسحاق ڈار نے کہا کہ، ''یہ بالکل غلط ہے کہ نواز شریف نے یہ حکم دیا کہ ان کا (پرویز مشرف کا) جہاز نہ اترنے دیا جائے؛ یا انہوں نے پرویز مشرف کی گرفتاری کا حکم دیا تھا''۔
بقول ان کے، ''یہ دنیا کا منفرد واقعہ ہے کہ وزیر اعظم جو اپنے دفتر میں بیٹھا ہے اسے ہائی جیکر قرار دیا جاتا ہے اور اس پر مقدمہ چلایا جاتا ہے؛ اور سزا بھی سنائی جاتی ہے''۔
انھوں نے کہا کہ ''فوج کے سربراہ کو سبکدوش کرکے کوئی نیا سربراہ مقرر کرنا ملک کے وزیر اعظم کا آئینی اختیار ہوا کرتا ہے؛ اور بعض قابل بھروسہ اطلاعات کے بعد کہ مشرف وطن واپسی پر حکومت کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وزیر اعظم نے اپنے اسی حق کا استعمال کیا''۔
واقعات کے تسلسل کا ذکر کرتے ہوئے، اسحاق ڈار نے کہا کہ اس حوالے سے مختلف کہانیاں گردش کرتی رہی ہیں۔ ''ان میں سے اکثر قیاس آرائیاں ہیں۔ تاہم، یہ بالکل درست ہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم نے فوج کے سربراہ کو جس نے وزیر اعظم کی اجازت کے بغیر کارگل کی جنگ چھیڑی؛ اور جب اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن کے ذریعے معاملے کو رفع دفع کرایا گیا، تو حکومت کے خلاف باقاعدہ مہم شروع ہوگئی، اور منتخب حکومت کے خلاف یہ مہم چلائی جانے لگی کہ اگر نواز شریف امریکہ کو بیچ میں ڈال کر کارگل کی جنگ ختم نہ کراتے تو پاکستان پورا کشمیر حاصل کر لیتا''۔
اس سوال کے جواب میں کہ جب صورت حال یہ تھی تو میاں نواز شریف نے ان ہی مشرف صاحب کی حکومت سے ڈیل کیوں کی جس ڈیل کے نتیجے میں وہ ملک سے باہر چلے گئے، اسحاق ڈار نے کہا کہ ''ملک کی تاریخ بڑی تاریک رہی ہے۔ عالمی کوششوں کے باوجود بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔ اس سے پہلے ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کروا دیا گیا۔ اور دنیا کو اس بار بھی یہی خطرات تھے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے''۔
اس لیے، انھوں نے کہا کہ ''سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے معاملے میں مداخلت کی اور ڈیل کروائی، جس کے تحت اس کے باوجود کہ میاں نواز شرف کو سزا سنائی جا چکی تھی، انہوں نے پرویز مشرف کو مجبور کیا اور میاں نواز شریف کی جان بچائی۔ اور اس عمل میں قطر کے اس وقت کے وزیر خارجہ کو بھی شامل رکھا گیا''۔
اسحاق ڈار کے بقول، ''خود میاں نواز شریف نے اپنے طور پر کوئی ڈیل نہیں کی''۔
انہوں نے کہا کہ ''بارہ اکتوبر 1999پاکستان کی تاریخ کا تاریک دن ہے اور قوم کو یہ عزم کرنا چاہیے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت لائی جائے اور اسے ترقی کے راستے پر ڈالا جائے''۔
دوسری جانب، جنرل (ر) مشرف کے ایک قریبی ساتھی اور طویل عرصے تک ان کے ترجمان کے فرائض انجام دینے والے، ڈاکٹر رضا بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بارہ اکتوبر 1999 پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن ہے۔
ان کے الفاظ میں، ''یہ ایک ایسا دن ہے جو کسی کے لئے بھی خوشی اور مسرت کا دن نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ اس دن ایک منتخب حکومت کے غلط اقدامات کے سبب فوج کو بدرجہ مجبوری مداخلت کرنی پڑی''۔
بقول ان کے، ''اور اس عمل میں وہ حکومت ختم ہوئی۔ اب 22 سال کے بعد یہ کہہ کر تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش مناسب نہیں ہے کہ جنرل مشرف، جس کا مطلب ہے اس وقت کی فوج، منتخب حکومت کے خلاف کوئی منصوبہ بندی کر رہی تھی''۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ بڑی غیر مناسب بات ہے''۔
ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ ''کارگل کا اقدام ایک فوجی فتح تھی اور اس وقت کی حکومت اس سے آگاہ تھی اور وہ اسے ایک سیاسی فتح میں بدلنا چاہتی تھی جو وہ نہ کر سکی۔ اب یہ کہنا کہ کارگل کو مسئلہ اس لئے بنایا گیا کہ فوج مشرف صاحب کی سربراہی میں حکومت سنبھالنا چاہتی تھی، یہ بڑی نامناسب بات ہے''۔
اس سوال کے جواب میں کہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کہانیاں ہیں کہ جنرل مشرف کے طیارے کو اترنے کی اجازت نہیں دی گئی یا ان کی گرفتاری کے احکامات دیے گئے، ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ ''یہ سب کہانیاں نہیں بلکہ حقائق ہیں''۔
ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ ''اس کی ریکارڈنگز موجود ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے''۔
انھوں نے کہا کہ ''عدالت نے شواہد کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو سزا سنائی۔ بعد میں سعودی عرب جیسے برادر ملک نے نواز شریف صاحب کی طرف سے اپیل کرکے ان کی سزا معاف کروائی اور انہیں پاکستان سے نکالا''۔
بقول ڈاکٹر بخاری، ''یہ تاریخی حقائق ہیں''۔ انہوں نے کہا کہ ''ان واقعات کو کوئی سو سال نہیں گزرے کہ آپ تاریخ تبدیل کر دیں''۔
انہوں کہ کہا کہ ''اگر سیاست دان معاملات ٹھیک چلاتے رہیں تو فوج کو کیا ضرورت ہے مداخلت کرنے کی''۔
ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ مشرف کو تو کریڈٹ ملنا چاہئیے کہ نو سال کے بعد انہوں نے حکومت خود منتخب نمائندوں کے حوالے کر دی اور دور جدید میں وہ پہلے فوجی حکمراں ہیں جو نو سال بعد پرائیویٹ شہری بن گئے۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے ملک میں تین بار مارشل لا لگایا گیا، اور اس وقت کی منتخب حکومتیں ختم ہوئیں۔