|
اسلام آباد - پاکستان میں 12 اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت اس وقت ہوئی جب اہم ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹننٹ جنرل خواجہ ضیا الدین بٹ کو وزیرِ اعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے شام چھ بجے کے انگریزی خبرنامے کے دوران اُن کی تقرری کی خبر نشر ہونے کے کچھ لمحوں بعد ہی پی ٹی وی سمیت اہم سرکاری اداروں کا کنٹرول فوج نے سنبھال لیا تھا۔
جنرل (ریٹائرڈ) خواجہ ضیا الدین بٹ نے وائس آف امریکہ کو فوجی بغاوت سے پہلے اور 12 اکتوبر 1999 کی روداد تفصیل سے سنائی۔
ضيا الدين بٹ نے بتایا کہ ملک میں 12 اکتوبر سے قبل یہ چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔
ان کے بقول ایٹمی دھماکوں اور کارگل جنگ کے بعد ملکی معیشت دباؤ کا شکار تھی۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کی ساری توجہ معیشت کی بہتری کی جانب مبذول تھی۔
"آٹھ اکتوبر کو وزیرِ اعظم نواز شریف سے ملاقات کر کے میں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ نواز شریف نے کہا کہ آرمی چیف پرویز مشرف سری لنکا سے واپس آ جائیں تو پھر اس پر بات کریں گے۔"
جنرل (ریٹائرڈ) ضیا الدین کا کہنا تھا کہ 12 اکتوبر کو جو کچھ ہوا نواز شریف کو اس کی امید نہیں تھی۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا نواز شریف نے آج تک نہیں بتایا۔ نواز شریف کو اس سے متعلق کتاب لکھنی چاہیے تاکہ حقائق منظر عام پر آ سکیں۔
اُن کے بقول نواز شریف نے جنرل مشرف کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بھی بنایا تھا۔ لیکن اچانک انہوں نے پرویز مشرف کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
خیال رہے کہ پرویز مشرف کے پاس آرمی چیف کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اضافی عہدہ بھی تھا۔
ضیا الدین بٹ کے بقول پرویز مشرف نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کے بہت قریب تھے اور میاں شریف اُنہیں اپنا چوتھا بیٹا کہا کرتے تھے۔
12 اکتوبر کو کیا ہوا؟
اس دن کو یاد کرتے ہوئے خواجہ ضياالدين نے بتايا کہ ان کو اپنے چيف آف آرمی اسٹاف بنائے جانے کا علم نہیں تھا۔
"سيکورٹی اُمور پر بات چیت کے لیے وزيرِ اعظم سے ملنے گیا۔ اچانک انہیں بتايا گيا کہ وزيرِ اعظم نے اُنہیں فور اسٹار جنرل کی ترقی دے کر آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔"
"فور اسٹار جنرل کی پروموشن کے لیے باقاعدہ تقریب ہوتی ہے اور وردی میں ایک اضافی رینک لگایا جاتا ہے۔ میرے پاس تو رینک بھی نہیں تھا۔ وزیرِ اعظم کے ملٹری سیکریٹری نے اپنی وردی سے ایک کٹ نکال کر دی۔ کراؤن لگانے کے لیے پن بھی نہیں تھی ماچس کی تیلی کے ذریعے کراؤن کو سہارا دیا گیا۔"
ضیا الدین بٹ کہتے ہیں یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ آج بھی یہ راز ہے اور اس کا جواب صرف میاں نواز شریف کے پاس ہے۔
خواجہ ضیا الدین کہتے ہیں کہ بعد کے حالات سے ثابت ہوا کہ دوسری طرف بھی تیاری مکمل تھی۔ "جیسے ہی میرا اعلان ہوا ادھر پی ٹی وی سمیت دیگر سرکاری اداروں کا کنٹرول فوج نے سنبھال لیا۔ باقی لوگوں کی طرح مجھے بھی گھیرے میں لے لیا گیا۔ اس سارے عمل کے دوران میں نے دانش مندی سے کام لیا ورنہ افراتفری اور خون خرابے کا خدشہ تھا۔"
'لمحوں میں دوست دشمن بن گئے'
جنرل ضياالدين کو اس بات کا بہت افسوس ہے کہ اس واقعے نے برسوں پر محيط قريبی دوستیوں کو متاثر کيا۔ انہوں نے بتايا کہ ميری پرويز مشرف سے 40 سال کی دوستی تھی ان کے ساتھ خاندانی مراسم تھے۔ پرویز مشرف کے بچے ميرے ہاتھوں ميں پلے بڑھے۔ جنرل محمود، جنرل شاہد عزيز، سب بہت ہی قريبی دوست تھے۔ لیکن ديکھتے ہی ديکھتے دوست دشمن بن گئے۔
اُن کے بقول بعض مشترکہ دوستوں نے کوشش کی کہ سب دوست دوبارہ اکٹھے ہو سکیں۔ لیکن جب اتنا کچھ ہو چکا ہو تو پہلے والی بات نہیں رہتی۔
خواجہ ضیا الدین کہتے ہیں کہ ہمیں 12 اکتوبر 1999 اس لحاظ سے یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان تیسری دنیا کا ملک ہے۔ یہاں فوج کا ایک خاص مقام ہے ان کے ساتھ مل کر چلیں گے تو جمہوریت بھی جیسے تیسے چلتی رہے گی ورنہ مسائل جنم لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں فوجی مداخلت کوئی حیران کن بات نہیں ہوتی۔
بھارت کی بات کرتے ہوئے جنرل (ر) ضیا الدین کا کہنا تھا کہ وہاں کے حالات الگ ہیں۔ ان کے بقول بھارت کے معروضی حالات پاکستان سے مختلف رہے ہیں وہاں سویلین معاملات میں فوج کا عمل دخل نہیں ہے۔