رسائی کے لنکس

کیلی فورنیا: ذات پات کے فرق کو ختم کرنے کی قانون سازی کا مطالبہ کیوں؟


 کیلی فورنیا میں آباد روی داسیا کمیونٹی کی ایک خاتون، فوٹو اے پی
کیلی فورنیا میں آباد روی داسیا کمیونٹی کی ایک خاتون، فوٹو اے پی

امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیئٹل میں دنیا بھر سے آنے والے تارکین وطن اور پناہ گزین آباد ہیں۔ یہ شہر، ہر قسم کے امتیاز سے بالاتر سبھی کے رہنے، کام کرنے اور سیاحت کے حق کی حمایت کرتا ہے۔21 فروری 2023 کو امریکہ کے شہر سئیٹل شہر کی سٹی کونسل نے ملازمت،عوامی مقامات اور رہائش میں ذات پات پر مبنی تعصب کو ختم کرنے کے لیے ایک قانون پاس کیا تھا۔

اب امریکہ کی ایک دوسری ریاست کیلی فورنیا میں بھی بھارت سے آکر آباد ہونے والی ایک مذہبی کمیونٹی ایسی ہی ایک قانون سازی کی حمایت کر رہی ہے جس کا مقصد کیلی فورنیا میں کسی بھی قسم کے ذات پات کے امتیاز کو کالعدم قرار دینا ہے۔ یہ مطالبہ کرنے والی روی داسیا کمیونٹی مساوات کو اپنے عقیدے کا مرکز قرار دیتی ہے ۔اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو ریاست کیلی فورنیا اپنے قوانین میں ذات پات کے نظام کو کالعدم قرار دینے والی پہلی امریکی ریاست بن جائے گی۔

امریکہ میں آخر ذات پات کے فرق کو ختم کرنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟

روی داس مندر میں بہت سکون سے عبادت کرتے اس کمیونٹی کے ایک رکن اسرا کہتے ہیں کہ انہیں وہ وقت بھی یاد ہے جب وہ امریکہ آئے تھے، اور ان کا خیال تھا کہ اس ملک میں انہیں ان توہمات اور رسم و رواج سے واسطہ نہیں پڑے گا، جس کا انہیں اپنے ملک میں سامنا رہتا تھا۔۔ لیکن ان کا تجربہ مختلف رہا۔

انہیں یہاں بھی اپنی نچلی ذات کی وجہ سے ایک دوسرے مندر کے باورچی خانے میں جانے سے روک دیا گیا ۔اسرا،امریکہ میں ذات پات کی وجہ سے تعصب کا نشانہ بننے والے اکیلے شخص نہیں ہیں ۔ ان کی کمیونٹی کے متعدد اراکین کا کہنا ہے کہ انہیں اب بھی ایسے لوگوں کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ثقافت ، کھانوں اور زبان تک سبھی میں ان کے جیسے ہی ہیں ۔

روی داسیا کیمونٹی کی خواتین اپنی عبادت گاہ میں، فوٹو اے پی
روی داسیا کیمونٹی کی خواتین اپنی عبادت گاہ میں، فوٹو اے پی

ریاست کیلی فورنیا کے وسطی علاقے میں واقعے ایک محلے میں جہاں جنوبی ایشیا ئی لوگوں کی بڑی تعداد آباد ہے ،رویداسیا کمیونٹی کے ایک رکن نے گروسری کی دکان کھولی جس نے شروع میں تو بہت اچھا بزنس کیا لیکن جب لوگوں کو پتہ چلا کہ دکان مالک نچلی ذات کا ہے تو ان کا کاروبار بالکل ٹھپ ہو گیا ۔

ایک پولٹری پلانٹ میں کام کرنے والے ہربلاس سنگھ نے کہا کہ ان کے پنجابی ساتھیوں نے یہ جاننے کے بعد کہ وہ دلت ہیں ،لنچ کے دوران ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھنے سے انکار کر دیا۔

یہ محض چند مثالیں ہیں۔ رویداسیا کمیونٹی کے اراکین سوال کرتے ہیں کہ امریکہ میں رہتے ہوئے سال 2023میں بھی ان کے ساتھ یہ سلوک کیسے روا رکھا جا سکتا ہے ؟۔ان کاکہنا ہے کہ انسان کی حیثیت سے ہم شائد اس فرق کو نہیں مٹا سکتے اس کے لیے ہمیں قانون ہی کی ضرورت ہے۔

روی داسیا کمیونٹی کا ایک مندر فوٹو اے پی
روی داسیا کمیونٹی کا ایک مندر فوٹو اے پی

تاہم اس قانون سازی کو ان گروہوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو سمجھتے ہیں کہ کہ یہ بل ،ہندو امریکیوں اور ہندوستانی نسل کے لوگوں کے درمیان امتیازی سلوک کا باعث بنے گا۔ کئی دلت بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ذات پات کی شناخت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور خاص طور پر امریکہ میں رہتے ہوئے اسے سب کے سامنے آشکار کرنا غیر ضروری ہے۔

روی داس کمیونٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ ذات پات کے تعصب کے خلاف قانون سازی کی عوامی سطح پر حمایت کرنا خود کو سب کے سامنے لا کھڑا کرنا ہے لیکن وہ یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ مساوات کے لیے لڑنا ان کے خون میں شامل ہے۔

روی داسیا کمیونٹی کیا ہے ؟

امریکی ریاست کیلیفورنیا کی سنٹرل ویلی میں روی داسیا کمیونٹی کے تقریباً 20,000 ارکان رہائش پذیر ہیں جن میں سے اکثریت کی جڑیں بھارتی پنجاب میں ہیں۔ یہ لوگ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے 14ویں صدی کے ایک گرو، روی داس کے پیروکار ہیں اور اپنے گرو کی طرح یہ لوگ بھی دلت یعنی اچھوت ذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔

ہمیشہ پس منظر میں رہنے والے یہ لوگ اب چاہتے ہیں کہ ان کی آواز بھی سنی جائے اور اسی لیے وہ ریاست کی سینیٹ میں اس بل کی حمایت کر رہے ہیں جو کیلیفورنیا میں ذات پات کے فرق کو غیر قانونی قرار دے گا۔ کمیونٹی کے بہت سے اراکین کا کہنا ہے کہ انہیں اب بھی ملازمتوں، تعلیم اور عبادت گاہوں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتاہے اسی لیے وہ آج بھی اونچی برادری والوں کے سامنے یہ بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ وہ دلت ہیں ۔

روی داسیا کمیونٹی کے ارکان مندر میں ، فوٹو اے پی
روی داسیا کمیونٹی کے ارکان مندر میں ، فوٹو اے پی

گرو روی داس کون تھا؟

روی داس ایک گرو، صوفی اور شاعر تھے جو شمالی بھارت کی بھکتی تحریک کی مشہور شخصیات میں سے ایک رہے ۔ انہوں نے اپنی تعلیمات میں محبت اور عقیدت کے پیغام کو سب سے اوپر رکھا اور ذات پات کے نظام کے خلاف تبلیغ کی۔ روی داس 14ویں صدی میں بھارت کے شہر وارانسی کے قریب ایک گاؤں میں چمڑے کا کام کرنے والے موچی خاندان میں پیدا ہوئے ، جنہیں چمار کہا جاتا اور اچھوت سمجھا جاتا تھا ۔

روی داسیا کے مندر

روی داسیا کی عبادت گاہ کو سبھا، ڈیرہ، گرودوارہ یا گروگھر کہا جاتا ہے، جس کا ترجمہ مندر کے طور پر بھی کیا جا تاہے۔ جن کی عبادت گاہ میں داخل ہونے سے پہلے پیروکار اپنا سر ڈھانپتے ہیں اور اپنے جوتے اتار دیتے ہیں۔ ۔ مندروں میں پوجا کے بعد کا کھانا پیش کیا جاتا ہے جیسا کہ سکھ گوردوارے بھی کرتے ہیں، جسے لنگر کہا جاتا ہے۔ روی داسیا مندر اکثر عبادت گاہوں میں مورتیاں یا گرو روی داس کی تصویریں دکھاتے ہیں۔

روی داسیا کمیونٹی کے ایک مندر میں عبادت گزار،فوٹو اے پی
روی داسیا کمیونٹی کے ایک مندر میں عبادت گزار،فوٹو اے پی

ر وی داسیا کی شناخت

پروفیسر رونکی رام کا کہنا ہے کہ روی داسیا کمیونٹی کی شناخت کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ مختلف مذہبی کمیونٹیز کی روایات کی پیروی کرتے ہیں نہوں نے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے وہ اپنے لیے ایک الگ شناخت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن، وہ سکھ روایات کی بھی پیروی کرتے ہیں۔

روی داسیا کے بہت سے مرد ارکان لمبے بال رکھتے ہیں اور پگڑی پہنتے ہیں اور سکھوں کے عقیدے کی طرح کڑا، لکڑی کی کنگھی اور کرپان یا چاقو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ کمیونٹی میں بہت سے مردوں اور عورتوں کے آخری نام سکھوں کی طرح سنگھ اور کور ہوتے ہیں ۔

روی داس عقیدے کے کچھ پیروکار ہندو بھی ہیں جو بھارت کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن امریکی ریاست کیلی فورنیا میں روی داسیا کمیونٹی کے ارکان زیادہ تر بھارتی پنجاب سے آکر آباد ہوئے ہیں۔

روی داسیا کمیونٹی کے ارکان اپنے مندر میں ،فوٹو اے پی
روی داسیا کمیونٹی کے ارکان اپنے مندر میں ،فوٹو اے پی

سکھ ازم کے ساتھ کمیونٹی کا رشتہ

نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کی بشریات اور ایشین اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ساشا سبھروال کہتی ہیں کہ سکھ مذہب کے ساتھ روی داسیا برادری کا تعلق کافی اہم اور لچکدار ہے۔

اسے کسی رشتے یا تعلق کا نام نہیں دیا جا سکتا یہ ایک بہت پیچیدہ خیال ہے کہ ان لوگوں کے لیے ایمان کا کیا مطلب ہے ،بہت سے معاملات میں یہ آزاد اور خود مختار ہیں اور روی داسیا میں ہمیں کچھ چیزیں دیگر عقیدوں سے مشابہ بھی نظر آتی ہیں ۔

سبھروال کہتی ہیں کہ اتحاد کا راستہ بامعنی اسٹرکچرل تبدیلیاں کرنے میں ہی پوشیدہ ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اکثر ذات پات کو ایک مسئلے کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ۔

اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG