دنیا کے نقشے پر ہانگ کانگ، چین کا ایک چھوٹا سا جغرافیائی حصہ دکھائی دیتا ہے جو جنوبی چین کے سمندر پر واقع ہے لیکن یہ خطہ چینی سر زمین کے دوسرے حصوں سے انتظامی، اقتصادی اور سیاسی طور پر مختلف ہے۔
سال 1997 میں برطانوی کنٹرول ختم ہونے کے بعد اس کا انتظام چین کے سپرد کرنے سے لے کر اب تک اسے 'ایک ملک دو نظام' کے طریقہ کار کے مطابق چلایا جارہا ہے۔
یوں ہانگ کانگ کو کچھ اقتصادی اور سیاسی خود مختاری حاصل ہے اور اس میں بسنے والے 70 لاکھ سے زیادہ باشندے جمہوری، سیاسی اور اظہار رائے کی آزادی اور اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں جو چین میں رہنے والوں سے مختلف ہے۔
ہانگ کانگ سے متعلق چین کا نیا قانون کیا ہے؟
چین کے قانون ساز ادارے 'قومی عوامی کانگریس' کی کمیٹی نے جون میں قومی سلامتی کے ایک قانون کی منظوری دی جو چینی ریاست سے اختلاف رائے کو ایک جرم قرار دیتا ہے۔
مذکورہ قانون کے مطابق جرائم کا مطلب دہشت گردی، تخریب کاری، علیحدگی پسندی اور بیرونی طاقتوں سے ملی بھگت کرنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا اصل مقصد مخالف آوازوں کو روکنا ہے۔
اس قانون کے تحت بیجنگ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں ایک سیکیورٹی فورس بنائے اور اسے قومی سلامتی کے معاملات کے مقدموں کی پیروی کی غرض سے ججوں کی تعیناتی کرنے کا بھی اختیار ہو گا۔
اس قانون کا متن اسی دن جاری کیا گیا جس دن سے یہ نافذ العمل ہوا۔ اس قانون کے جاری کرنے یا بنانے میں چین اور ہانگ کانگ کے قانون ساز ادارے میں کوئی تعاون یا تبادلہ خیال نہیں ہوا۔
تقریباً ڈیڑھ سو سال کے برطانوی نو آبادیاتی کنٹرول کے اختتام پر برطانیہ اور چین کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا کہ 1997 سے 2047 تک کی پچاس سالہ مدت میں ہانگ کانگ میں سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام چلتا رہے گا۔
معاہدے میں شامل تھا کہ ہانگ کانگ کے شہری ایسے انداز سے ہی زندگی گزارتے رہیں گے جیسے وہ برطانوی دور سے گزارتے چلے آ رہے ہیں۔
لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں چین جیسے جیسے ایک بڑی اقتصادی قوت کی حیثیت سے اُبھرنے لگا اس نے ہانگ کانگ کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوششیں شروع کر دیں۔
اگرچہ چین کے دوسرے حصوں کی طرح چینی کمیونسٹ پارٹی ہانگ کانگ پر انتظامی یا حکومتی عمل داری کا کنٹرول نہیں رکھتی لیکن چین کی طرف سے ہانگ کانگ کے شہریوں پر اپنے قوانین کو نافذ کرنے کی کوششوں نے ہانگ کانگ کے باشندوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔
ہانگ کانگ کے شہری خصوصاً نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جمہوری طرز حیات اور چین کے سخت گیر کنٹرول کے تحت زندگی گزارنے میں ایک نمایاں فرق اور تضاد ہے۔
ہانگ کانگ کے شہریوں اور چین کے درمیان جاری کشیدگی کے نتیجے میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے اسی اختلاف کا نتیجہ ہیں۔
چین کا حصہ ہونے کے باوجود ایک آزاد خطے کے طور پر ہانگ کانگ کے اختیارات کا منبع دو دستاویزات ہیں۔ اول 1984 کا چین اور برطانیہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ جس کے تحت ہانگ کانگ خود مختار ہونے کے باوجود چین کا حصہ رہے گا۔ دوسرا ہانگ کانگ کا بنیادی قانون ہے جو اس کے نظام اور اس کے شہریوں کو آئینی اور قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
ان دونوں دستاویزات کی رو سے ہانگ کانگ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ کچھ معاملات میں خارجی تعلقات استوار کر سکتا ہے جن میں تجارت، مواصلات، سیاحت اور ثقافت شامل ہیں لیکن چین کو دفاع اور سفارت کاری کے معاملات پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
مزید یہ کہ بیجنگ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے بینادی قانون کی اپنے قانون کے مطابق تشریح کر سکتا ہے اور اسی وجہ سے چین ہانگ کانگ پر اپنا اختیار استعمال کر سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس سال بیجنگ نے یہ کوشش کی ہے کہ ایک ملک دو نظام کو ازسرنو استعمال کرے تاہم اس سے ہانگ کانگ کے باشندوں کی آزادیاں سلب ہونے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔
'دی گارڈین اخبار' کے مطابق چین ہانگ کانگ میں انٹرنیٹ کو فلٹر کرنے والی ایک فائر وال بنا رہا ہے لیکن اسے ایسا کرنے میں ابھی کچھ سال لگیں گے کیونکہ ہانگ کانگ میں قائم نجی انٹرنیٹ کمپنیوں کا ایک جال بنا ہوا ہے۔
ہانگ کانگ کے عوام کی شکایات اور رد عمل
ہانگ کانگ میں جاری احتجاجی سلسلے کا آغاز 2019 کے موسم گرما میں اس وقت ہوا جب قانون سازی کی ایک تجویز سامنے آئی جس کے تحت ہانگ کانگ سے ملزمان کو ٹرائل کے لیے چین بھیجے جانے کی تجویز تھی۔
جمہوریت کے حامیوں نے اس قانون کو ہانگ کانگ کا اختتام قرار دیا اور اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔
ہانگ کانگ کے شہریوں کی اکثریت 'ایک ملک اور دو نظام' کے معاہدے کے تحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق صرف 11 فی صد عوام ہانگ کانگ کو 2047 میں 'ایک ملک دو نظام' کے خاتمے کے بعد مکمل طور پر آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔
تاہم کونسل برائے خارجی تعلقات کے ایک تجزیے کے مطابق چینی اقدام کے بعد ہانگ کانگ کے لوگوں کے اس نظام پر اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔ اس قانون سے ناخوش ہونے کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ کے عوام اپنی حکومت اور سیاسی حالات سے بھی مطمئن نہیں۔
گزشتہ سال ہانگ کانگ یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق 81 فی صد لوگوں نے اپنی حکومت کے متعلق منفی خیالات کا اظہار کیا۔
چینی حکومت کے اقدامات کے علاوہ ہانگ کانگ کے لوگ شہر کی اقتصادی صورتِ حال سے بھی ناخوش ہیں کیوں کہ وہی شہر جس کی ترقی کی دنیا میں مثال دی جاتی رہی ہے وہاں اب لوگوں کی آمدنی کم ہو رہی ہے۔
ہانگ کانگ کے شہریوں کو درپیش ایک اہم مسئلہ ان کی شناخت ہے۔ حالیہ عدم استحکام کے نتیجے میں یہ سوال لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا ہے۔ بعض لوگوں اس تذبذب میں ہیں کہ کیا اب اُن کی شناخت اب چین سے وابستہ ہو گی یا وہ ہانگ کانگ کا طرز زندگی اپنائیں گے۔ البتہ زیادہ تر شہری خود کو ہانگ کانگ سے وابستہ رکھنا چاہتے ہیں۔
ہانگ کانگ کی اقتصادی اہمیت اور چین کی مستقبل کی پالیسی
ہانگ کانگ کو طویل عرصے سے عالمی تناظر میں ایک اہم اقتصادی مرکز کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے اور اس خطے میں موجود سہولتوں کی وجہ سے اسے کاروبار کرنے کی ایک پر کشش جگہ سمجھا جاتا ہے۔
لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں چین تیزرفتار ترقی کر کے اب دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ چین کی ترقی نے ہانگ کانگ کی اس خطے میں ایک ماڈل کی حییثت کو قدرے کم کردیا ہے۔
دوسری جانب چین کی ترقی نے ہانگ کانگ کی قربت کی وجہ سے اسے مزید اہم کردیا ہے کیوں کہ ہانگ کانگ کی معیشت کا سب سے نمایاں پہلو اس کی سروسز کی سہولتیں ہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کار اور تاجر دوسرے علاقوں کے مقابلے میں یہاں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
حتیٰ کے چین کے شنگھائی اور شینزین جیسے بڑے اقتصادی مراکز کے مقابلے میں ٹیکسوں کی شرح کم ہونے کی وجہ سے اسے سرمایہ کاری کے لیے ایک اہم مقام سمجھا جاتا ہے۔ لیکن باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کی وجہ سے چین کے لیے ہانگ کانگ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
اس باہمی انحصار نے چین کے لیے ہانگ کانگ میں امن و امان اور استحکام کو ایک اہم ضرورت بنا دیا ہے۔ چین چاہتا ہے کی اس کی علاقائی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ وہ ہانگ کانگ میں جاری احتجاجی مظاہروں کو بھی اسی تناظر میں دیکھتا ہے۔
چین کو ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں پر اس لیے بھی اعتراض ہے کہ اگر وہ یہاں سیاسی اصلاحات سے پیچھے ہٹتا ہے تو ایک مثال بن جائے گی اور اس طرح ملک کے دوسرے خطے بھی اصلاحات کی مخالفت کریں گے۔
لیکن عالمی برادری کی ہانگ کانگ کی بہتری اور معیشت میں دلچسبی برقرار ہے۔ اقوامِ متحدہ اور ٹرمپ انتظامیہ سمیت کئی ممالک نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے شہریوں کے جمہوری حقوق پامال نہ کرے تاکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری بھی محفوظ رہے اور یہ اہم خطہ کاروبار کا مرکز بنا رہے۔
لیکن ایسے وقت میں جب صدر شی جن پنگ چین کو عالمی طاقت بنانے کی پالیسی پر کام کررہے ہیں ان کا اپنے ملک پر کنٹرول پالیسی کا اہم جزو دکھائی دیتا ہے۔
لیکن تبدیلیوں کے اس دور میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ چین 2047 کے بعد ہانگ کانگ کی مخصوص حیثیت کو برقرار رکھے گا یا اسے چین کے دوسرے حصوں کی طرح تمام مرکزی پالیسیوں کا پابند بنالے گا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ہانگ کانگ جمہوری اور غیر جمہوری نظریات اور طرز حکومت کی کشمکش میں اس صدی کا اہم ترین مرکز ثابت ہو۔