پاکستان اور بھارت کے 1947 میں قیام کے بعد تنازع کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں۔ لیکن، سات دہائیوں بعد بھی یہ تنازع حل نہ ہوسکا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تنازع کشمیر سے متعلق سب سے پہلی قرار داد جنوری 1948 میں منظور کی اور اب تک اس تنازع کے حل کے لیے ایک درجن سے زائد قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک بار پھر تنازع کشمیر پر ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے جو کہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن چین کی درخواست پر بلایا گیا ہے۔
تنازع کشمیر پر سلامتی کونسل نے ماضی میں پاکستان اور بھارت کو کیا ہدایات دیں اور اس حوالے سے کب کب پیش رفت ہوئی اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 38:
سلامتی کونسل میں 17 جنوری 1948 کو منظور کی گئی 38ویں قرار داد میں کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر پاکستان اور بھارت کے نمائندوں کو ایسے بیانات دینے سے روکا گیا، جن سے حالات مزید کشیدہ ہوں۔
قرار داد میں مزید کہا گیا کہ تنازع کشمیر سلامتی کونسل میں زیر غور ہے۔
قرار داد نمبر 39:
20 جنوری 1948 کو منظور کی گئی قرار داد میں تنازع کشمیر کے حل کے لیے تین رکنی کمیشن بنایا گیا۔
کمیشن میں ایک رکن بھارت، ایک پاکستان اور ایک رکن دونوں کی باہمی رضا مندی سے منتخب کرنے کے لیے کہا گیا۔
کمیشن کا کام سلامتی کونسل کو مشترکہ خط کے ذریعے خطے میں امن قائم کرنے کے لیے سفارشات دینا تھا۔
یاد رہے کہ تنازع کشمیر سب سے پہلے بھارت سلامتی کونسل میں لے کر گیا تھا۔
قرار داد نمبر 47:
پاکستان اور بھارت کے دلائل سننے کے بعد سلامتی کونسل نے قرار داد نمبر 39 کے تحت بنائے گئے خصوصی کمیشن کے اراکین کی تعداد بڑھا کر پانچ کردی۔ ارجنٹائن، بیلجیئم، کولمبیا، چیکو سلواکیہ اور امریکہ کے نمائندے بھی کمیشن میں شامل کیے گئے۔
21 اپریل 1948 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں کمیشن کو ہدایات دی گئیں کہ وہ خطے میں جا کر دونوں ممالک کے درمیان امن بحال کرائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے منعقد کرانے کے انتظامات کرے۔
قرار داد میں تنازع کے حل کے لیے تین اقدامات کرنے کو کہا گیا تھا۔
پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنے ان شہریوں کو جو کشمیر میں لڑنے گئے ہیں، واپس بلائے جب کہ بھارت سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوج میں مرحلہ وار کمی کرے اور کشمیر میں اتنی فوج ہی رکھے جتنی امن و امان کے قیام کے لیے درکار ہے۔
دونوں ممالک سے کہا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے۔
قرار داد نمبر 51:
3 جون 1948 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں اقوام متحدہ کے کمیشن کو متنازع علاقوں میں جا کر سلامتی کونسل کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل درآمد کرانے کا کہا گیا۔
قرار داد میں پاکستان کے اُس وقت کے وزیر خارجہ کی طرف سے سلامتی کونسل کو لکھے گئے خط کو بھی شامل کرنے کا کہا گیا۔
قرار داد نمبر 80:
اقوام متحدہ کے کمیشن اور نمائندہ جنرل مکنوٹن کی رپورٹس کے بعد سلامتی کونسل کی طرف سے دونوں ممالک کو جنگ بندی اور جموں و کشمیر کو فوج سے پاک علاقہ رکھنے کے معاہدے پر قائم رہنے کی تلقین کی گئی۔
14 مارچ 1950 کی قرار داد میں بھارت اور پاکستان کو اپنی فوجیں کنٹرول لائن تک پیچھے ہٹانے کے لیے کہا گیا۔ شمالی علاقہ جات کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام کیا گیا اور استصواب رائے کے انعقاد کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے نمائندہ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
قرار داد نمبر 91:
نمائندہ اقوام متحدہ سر اوون ڈکسن کی رپورٹ میں کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد میں حائل اختلافات بیان کیے گئے۔
سلامتی کونسل کی طرف سے سر اوون ڈکسن کا استعفی منظور کرتے ہوئے ان کی متبادل کو تین ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا اور پاکستان اور بھارت کو اقوام متحدہ کے نمائندے سے تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی۔
31 مارچ 1951 کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ملٹری مبصرین کا گروپ جنگ بندی پر نظر رکھے گا۔
قرار داد نمبر 96:
10 نومبر 1951 کی قرار داد میں اقوام متحدہ کے نمائندے فرینگ گراہم کی رپورٹ پیش کی گئی اور انہوں نے سلامتی کونسل میں خطاب میں کہا کہ بھارت اور پاکستان کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلانے، تنازع کشمیر کو باہمی رضا مندی سے حل کرنے اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی میں استصواب رائے کے قیام پر رضا مند ہوگئے ہیں۔
قرار داد نمبر 98:
نمائندہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہونے والے مذاکرات میں طے پایا کہ بھارت اور پاکستان ایک خاص تعداد میں کنٹرول لائن پر اپنی فوجیں تعینات رکھ سکیں گے۔
23 دسمبر 1952 کو منظور ہونے والی قرار داد میں پاکستان کے لیے یہ تعداد 3000 سے 6000 مقرر کی گئی، جبکہ بھارت کے لیے یہ تعداد 12000 سے 18000 مقرر کی گئی۔
قرار داد نمبر 122:
24 جنوری 1957 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں کہا گیا کہ آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی قانون ساز اسمبلی متنازع جموں و کشمیر کے مستقبل سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 91 کے مطابق جموں و کشمیر کا علاقہ متنازع ہے۔
قرار داد نمبر 123:
جموں و کشمیر میں حالات کشیدہ ہونے پر 21 فروری 1957 کو منظور ہونے والی قرار داد میں سلامتی کونسل نے صدر گنار جارنگ سے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کا دورہ کریں اور اس تنازع کے حل کے لیے اپنی تجاویز دیں۔
قرارداد نمبر 126:
دو دسمبر 1957 کی قرار داد میں صدر سلامتی کونسل گنار جارنگ کی رپورٹ میں بھارت اور پاکستان کو امن سے رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے نمائندہ اقوام متحدہ کو کہا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کا دورہ کریں اور اس تنازع میں مزید پیشرفت کے لیے اقدامات تجویز کریں۔
قرارداد نمبر 209:
چار ستمبر 1965 کی قرار داد میں پاک بھارت کنٹرول لائن پر بگڑتی صورت حال پر بھارت اور پاکستان کو فوری طور پر جنگ بندی کا کہا گیا۔ قرار داد میں دونوں ممالک کو اقوام متحدہ کے ملٹری مبصرین کے گروپ کے ساتھ تعاون کرنے اور سیکریٹری جنرل کو تین روز میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا۔
قرار داد نمبر 210:
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی رپورٹ کے مطابق 6 ستمبر 1965 کو منظور کردہ قرار داد میں بھارت اور پاکستان کو جنگ بندی اور اپنی فوجیں پانچ اگست 1965 والی پوزیشنز پر واپس بلانے کا کہا گیا۔ قرار داد میں تنازع کشمیر کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لینے کا بھی کہا گیا۔
قرار داد نمبر 211:
سلامتی کونسل کی طرف سے قرار داد نمبر 209 اور 210 میں جنگ بندی کی ہدایات دینے کے باوجود بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی نا ہونے پر 20 ستمبر 1965 کو ایک اور قرار داد کے ذریعے کہا گیا کہ 22 ستمبر کو سات بجے (جی ایم ٹی) تک جنگ بندی کی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشنز پر چلی جائیں۔
قرار داد نمبر 214:
27 ستمبر 1965 کو منظور ہونے والی قرار داد میں بھارت اور پاکستان کی طرف سے جنگ بندی نا کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ فریقین جنگ بندی معاہدے پر عمل کریں۔
قرار داد نمبر 215:
پانچ نومبر 1965 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی پر عمل نا کرنے پر دونوں ممالک کے نمائندوں سے سیکریٹری جنرل سے ملاقات کر کے فوجوں کی واپسی کا لائحہ عمل تشکیل دینے کا کہا گیا۔
قراد داد نمبر 307:
21 دسمبر 1971 کی قرار داد میں کہا گیا کہ بھارت اور پاکستان کے نمائندوں سے بات چیت کے بعد سلامتی کونسل چاہتی ہے کہ فوجوں کی واپسی مکمل ہونے تک جموں و کشمیر میں مکمل جنگ بندی ہو۔
قرار داد نمبر 1172:
بھارت اور پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے تجربات کی مذمت کرتے ہوئے 6 جون 1998 کی قرار داد میں دونوں ممالک کو مزید تجربات نا کرنے کا کہا گیا۔
قرار داد میں سلامتی کونسل کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر کو حل کرانے میں مدد کی بھی پیش کش کی گئی۔
تنازع کشمیر سے متعلق مزید ایک اور قرار داد منظور ہوتی ہے یا پھر تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو دو طرفہ مذاکرات کا عمل دوبارہ سے شروع کرنے کا کہا جاتا ہے؟
تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی طرف سے بھارت کو کشمیر میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی ہدایات بھی دی جا سکتی ہیں