رسائی کے لنکس

بیجنگ میں طالبان سفیر کی تعیناتی؛ 'چین کی نظریں افغانستان میں سرمایہ کاری پر ہیں'


افغانستان میں طالبان حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ چین نے بلال کریمی کی بیجنگ میں بطور سفیر تعیناتی کی اسناد قبول کر لی ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ چین نے بلال کریمی کی بیجنگ میں بطور سفیر تعیناتی کی اسناد قبول کر لی ہیں۔

چین نے واضح کیا ہے کہ جب تک افغان طالبان ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات اور جامع اصلاحات کے علاوہ سیکیورٹی صورتِ حال بہتر نہیں کرتے اس وقت تک ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

چینی وزارتِ خارجہ کا یہ بیان منگل کو ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب طالبان حکومت نے حال ہی میں بیجنگ میں اپنا سفیر تعینات کیا تھا جس کے بعد یہ چہ موگوئیاں ہو رہی تھیں کہ شاید چین، طالبان حکومت کو تسلیم کرنے جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا، تاہم کچھ ممالک نے طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی روابط قائم کر رکھے ہیں جن میں چین بھی شامل ہے۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ افغانستان کو بین الاقوامی برادری سے الگ نہیں رکھا جا سکتا، لیکن طالبان حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی برادری کی توقعات کے مطابق ملک کے اندر جامع سیاسی اصلاحات متعارف کروائیں۔

'چین، طالبان حکومت کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتا ہے'

افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ چین کی طرف سے کابل میں اپنے سفیر کو تعینات کرنا اور اس کے بعد افغان طالبان کے سفارت کار کو قبول کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

اُن کے بقول اگست 2021 میں کابل میں طالبان کی واپسی کے بعد کئی دیگر ممالک بھی اپنے سفارت کاروں کو کابل میں تعینات کر چکے ہیں۔

سمیع یوسف زئی کے بقول چین کئی دیگر ممالک کی طرح اپنے مفادات کے لیے افغان طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی روابط کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کہتے ہیں کہ چینی وزارتِ خارجہ کے بیان میں بظاہر ابہام نظر آتا ہے۔

اُن کے بقول طالبان سفارت کار کی اسناد قبول کرنا بہرحال چین کی جانب سے طالبان حکومت کی قانونی حیثیت تسلیم کرنے کا اعتراف ہی ہے۔

ظفر جسپال کہتے ہیں کہ چین، افغانستان میں سرمایہ کاری اور اقتصادی مفادات کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ روابط رکھنا چاہتا ہے۔

ظفر جسپال کہتے ہیں کہ اب پاکستان بھی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے عالمی برادری پر زور نہیں دے رہا۔ لہذٰا چین، پاکستان اور علاقائی ممالک کو نظرانداز کر کے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں جلدی نہیں کرے گا۔

پاکستان نے 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت آنے پر اطمینان کا اظہار کیا تھا، تاہم ماہرین کے مطابق ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر اب پاکستان بھی افغان طالبان سے مایوس ہو رہا ہے۔

سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے چین پاکستان کا نہایت قریبی دوست ہے اور ٹی ٹی پی سے متعلق چین اور پاکستان کے خدشات مشترکہ ہیں۔

اُن کے بقول افغانستان میں کوئی سیاسی حکومت نہیں ہے اور اگر چین ان پر پاکستان کے تحفظات دُور کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گا تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG