پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی جانب سے تحریکِ انصاف کے 11 اراکینِ اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کا معاملہ پاکستانی سیاست میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق استعفوں کی منظوری کے ذریعے حکومت تحریکِ عدم اعتماد کا خطرہ ٹالنے کے علاوہ ضمنی انتخابات کروا کر اپنی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے۔
جمعرات کو رات گئے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے استعفے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 64 کی شق (1) کے تحت تفویص اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے قبول کیے اور استعفوں کے نوٹی فکیشن الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف کے 123 اراکین اسمبلی نے مشترکہ طور پر استعفے دے دیے تھے جنہیں اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے منظور کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم نئے منتخب ہونے والے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے ان استعفوں کی تصدیق کا فیصلہ کیا اور تمام اراکین کو علیحدہ علیحده بلایا گیا۔
حکومت 11 نشستوں سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے!
سینئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ حکومتی اتحاد کی یہ حکمتِ عملی ہے کہ اس نے ان نشستوں کے استعفے منطور کیے ہیں جہاں اگر ضمنی انتخابات ہوتے ہیں تو مقامی دھڑے بندی کے باعث ان کے جیتنے کے امکانات بہتر ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس سے یہ عوامی تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش ہو گی کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہورہی ہے کیونکہ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں حکومتی اتحاد کو خاصہ دھچکہ لگا ہے۔
تجزیہ نگار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ حکومت چاہتی ہے کہ اگر تحریکِ انصاف واپس قومی اسمبلی میں آتی ہے تو وہ کسی صورت بھی حکومت کو ہٹانے کے حوالے سے غیر مؤثر رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس وجہ سے بھی لیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما یہ کہتے دیکھائی دیتے ہیں کہ حکومت کو صرف دو ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت اس عمل سے خود کو محفوظ اور تحریکِ انصاف کے اسمبلی میں واپسی کے نتیجے میں ان کے دباؤ کو محدود کرنا چاہتی ہے۔
تحریک انصاف کے جن 11 ارکان کے استعفے منظور کیے گئے ہیں ان میں صوبہ خیبر پختونخوا سے چار اور صوبہ پنجاب سے دو ارکان اور سندھ سے تحریک انصاف کے تین ارکان کے استعفے منظور کیے گئے ہیں اور ان تمام کا تعلق کراچی سے ہے۔
2018 کے انتخابات میں ان نشستوں پر تحریک انصاف کے اراکین محدود ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے تھے۔
تحریکِ انصاف نے استعفوں کی منظور پر اپنے ردعمل میں اسپیکر کے اقدام کو مکمل طور پر بلاجواز اور غیر آئینی قرار دے دیا۔
سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور تحریک انصاف کے رہنما قاسم سوری نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بطور قائم مقام اسپیکر یہ استعفےٰ پہلے ہی قبول کرچکے ہیں اور استعفوں کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھی بھجوا چکے ہیں۔
کیا تحریک انصاف ضمنی انتخاب میں جائے گی؟
تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اپنے اراکین کے مشترکہ استعفے جمع کروانے کے بعد سے قبل از وقت عام انتخابات کا مطالبہ کررکھا ہے۔
ایسے میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا تحریکِ انصاف ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی۔
رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں پی ٹی آئی ان نشستوں پر ضمنی انتخابات میں حصہ لے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ فوری عام انتخابات کے مطالبے کے ذریعے دباؤ بھی بڑھائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال میں پی ٹی آئی کے پاس اپنے مطالبے کو منوانے کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار بھی موجود ہے۔
مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی ضمنی انتخابات کے حوالے سے متضاد حکمتِ عملی اپنائے ہوئے ہے اور کراچی کے ایک حلقے میں انتخاب میں حصہ نہ لینے کے بعد عمران خان نے خود اعتراف کیا کہ یہ ان کا غلط فیصلہ تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی ان حلقوں کے ضمنی انتخابات کو خالی نہیں چھوڑے گی اور حصہ لے گی۔
کیا فوری عام انتخابات کا مطالبہ پورا ہوگا؟
جمعرات کی شب وفاق میں حکومتی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہی اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ’حکومت اپنی مدت پوری کرے گی‘ اور ’الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے۔‘
تاہم جمعہ کی صبح حزبِ اختلاف کے رہنما شیخ رشید نے دعوی کیا کہ ضمنی انتخابات کے بجائے نئے عام انتخابات پر معاملات طے پا گئے ہیں اور عام انتخابات اکتوبر میں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کی تاریخ، نیا الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کا فیصلہ قوم جلد سنے گی۔
فوری عام انتخابات کے حوالے سے سے تبصرہ کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پرویز الہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے عمران خان نے فوری عام انتخابات کا مطالبہ نہیں کیا۔
وہ کہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب حکومت کو چلانا چاہتی ہے اور اس کے نتیجے میں اپنے انتخابی حلقوں کو ترقیاتی کاموں اور وسائل مہیا کرکے مضبوط بنانا چاہتی ہے۔
مجیب الرحمن شامی سمجھتے ہیں کہ اس نئی صورتِ حال میں فوری عام انتخابات کی طرف نہیں جایا جائے گا۔
رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ اگر اسپیکر قومی اسمبلی ایک ہی وقت میں 123 اراکینِ اسمبلی کے استعفے منظور کرلیتے تو الیکشن کمیشن یہ کہ سکتا تھا کہ آدھے پارلیمان کے انتخاب کے لیے وسائل اور وقت درکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرحلہ وار ضمنی انتخاب کے طریقۂ کار کے ذریعے حکومت اپنے اقتدار کو سنبھالے رکھنا چاہتی ہے۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے سبب موجودہ اسمبلی اپنی مدت مکمل نہیں کرپائے گی۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی یہ سوچ تقویت پارہی ہے کہ اقتدار میں رہنے کے نتیجے میں ان کی ساکھ کو زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے جن اراکین کے استعفے منظور کیے ان میں این اے 22 سے علی محمد خان، این اے 24 فضل محمد خان، این اے 31 سے شوکت علی، این اے 45 سے فخر زمان خان، این اے 108 سے فرخ حبیب، این اے 118 سے اعجاز احمد شاہ، این اے 237 سے جمیل احمد خان، این اے 239 سے محمد اکرم چیمہ، این اے 246 سے عبدالشکور شاد جب کہ خواتین کی مخصوص نشستوں سے ڈاکٹر شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار خان شامل ہیں۔
سیکریٹریٹ کے مطابق اراکین کے استعفوں کے نوٹی فکیشن الیکشن کمیشن پاکستان کو بھجوادیے گئے ہیں۔