افغانستان سے امریکی شہریوں اور دیگر افراد کا انخلا 30 اگست کو آخری امریکی فوجیوں کے انخلاء کے ساتھ ختم نہیں ہوگیا تھا، لیکن اس کی رفتار میں کمی پیدا ہوئی ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کرنے والے عالمی ادارے اس وقت بھی افغانستان سے کئی ایسے شہریوں کو نکالنے کے لئے کوشاں ہیں، جن کو اب تک نکلنے کا راستہ نہیں ملا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے افغانستان کی فوج اور حکومت کے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد تقریباً چھ ہفتوں کے دوران ہوائی جہازوں کے ذریعے دارالحکومت کابل سے 124,000 افراد کو باہر نکالا۔
اس کے بعد بھی، کئی ہزار لوگ کسی نہ کسی ذریعے سے افغانستان سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو ئے، جن کے لئے امریکہ کے محکمہ خارجہ یا نجی گروپوں اور افراد نے امدادی پروازوں پر نکلنے کا انتظام کیا تھا۔ اس میں کچھ اعلیٰ سطحی کوششیں بھی شامل ہیں، جیسا کہ 18 نومبر کی پرواز جو کہ امریکی ریئلٹی ٹی وی اسٹار کم کارڈیشین ویسٹ نے ایک چارٹرڈ فلائٹ افغانستان بھجوا کر کی، تاکہ افغانستان کی نوجوان خواتین کی فٹ بال ٹیم کے ارکان اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سے نکالا جا سکے۔
انخلا کے ابتدائی مراحل میں کیا ہوا؟ افغانستان سے نکالے گئے شہریوں کو کہاں لے جایا گیا؟
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق باقی رہ جانے والے امریکی شہریوں، امریکی سکونت رکھنے والوں یا خصوصی امیگریشن ویزا رکھنے والے افراد جنہوں نے امریکی فوج کے لیے مترجم کے طور پر خدمات انجام دیں یا کسی اور حیثیت میں گزشتہ 20 برسوں کے دوارن کام کیا، ان کو خاموشی سے وہاں سے نکالا گیا ہے۔
لیکن اس طرح کی خدمات انجام دینے والے دیگر افراد جو ابھی بھی افغانستان میں موجود ہیں، امریکہ اور دیگر اقوام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان کو طالبان کی حکومت سے بچ کر نکلنے میں مدد کے لیے مزید اقدامات کریں۔
جیسے ہی اگست میں افغان حکومت اور فوج طالبان کے سامنے بے بس ہوئی، امریکہ نے افراتفری میں کابل کے مرکزی ہوائی اڈے کے ذریعے جس قدر ممکن تھا، زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو نکالنے کی کوشش کی۔ یہ ایک افراتفری کا منظر تھا کیونکہ کابل میں حکومت کے غیر فعال ہونے کا عمل اس سے کہیں تیزی سے مکمل ہوا، جس کی توقع امریکی حکومت کر رہی تھی۔
انخلاء کے عمل میں جو زیادہ تر فوجی کارگو جیٹ طیاروں کے ذریعے انجام پایا، ترجیح امریکی شہریوں، امریکہ کے مستقل رہائشیوں، خصوصی ویزا رکھنے والوں یا ان لوگوں اور ان کے خاندانوں کو دی گئی، جن کے کام نے انہیں انخلا کا حقدار بنایا تھا۔ ان پروازوں میں ان لوگوں کو بھی لایا گیا جن کو خاص طور پر طالبان کے انتقام یا ان کی سخت حکمرانی کے دور میں خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔ ان میں صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار بھی شامل تھے۔
ابتدائی مراحل میں 124,000 افراد کو نکالا گیا جن میں تقریباً 6,000 امریکی شہری شامل ہیں۔ ان پروازوں کے ذریعے کچھ افغانوں کو عارضی طور پر کم از کم آٹھ ایسے ممالک میں منتقل کر دیا گیا ہے جنہوں نے افغان شہریوں کو قبول کرنے پر اتفاق کیا، جن کو بعد ازاں بطور پناہ گزیں امریکہ پہنچنا ہے یا انہیں کسی اور جگہ پر آباد کیا جانا ہے۔
امریکہ میں اب تک 73,000 افغان شہریوں کو لایا جا چکا ہے۔ ان پناہ گزینوں کو بالآخر نجی تنظیموں کی مدد سے امریکہ بھر کے مختلف علاقوں میں آباد کیا جائے گا۔ تقریباً چالیس ہزار افغان شہری اب بھی امریکہ میں سات فوجی اڈوں پر مقیم ہیں۔ امیگریشن اور میڈیکل سے متعلق ان کی کاغذی کارروائی کا عمل جاری ہے جس کے بعد ان کو بھی آبادکاری کے لیے بلاوے کا انتظار ہو گا۔
اس کے بعد سے اب تک کیا ہوا؟
ستمبر میں، طالبان نے کچھ چارٹر پروازوں کو امریکی شہریوں، امریکی باشندوں اور ویزا ہولڈرز کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے لوگوں اور مناسب سفری دستاویزات کے ساتھ افغان باشندوں کو ملک سے لے جانے کی اجازت دینا شروع کر دی۔ الائیڈ ائیر لفٹ 21 اور ٹاسک فورس آرگو جیسے ناموں والی نجی تنظیموں نے اطلاع دی ہے کہ وہ سینکڑوں لوگوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے چارٹرڈ فلائٹس کا بندوبست کر رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے چارٹرڈ پروازوں کا اہتمام کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے 30 اگست سے اب تک 435 امریکی شہریوں اور امریکہ کی مستقل سکونت یا گرین کارڈ رکھنے والے 325 افراد کو افغانستان سے نکالا ہے۔
ان کوششوں میں شامل لوگوں کا اندازہ ہے کہ تقریباً 8,000 افراد کو افغانستان سے باہر لے جایا گیا ہے۔ یہ تعداد بہت سی وجوہات کی بنا پر محدود ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے لوگ روپوش ہیں، ان کی دستاویزات ضائع ہو چکی یا گم ہو گئی ہیں۔ اس وقت امریکہ کے لیے ویزا کی درخواست دینا بھی مشکل ہے کیونکہ امریکی سفارت خانہ بند ہو چکا ہے۔ قطر نے حال ہی میں امریکہ کے لیے کچھ قونصلر سروسز دینے پر اتفاق کیا ہے۔
کیا اب بھی افغانستان کے اندر امریکی شہری موجود ہیں؟
اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں نے رواں ماہ کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ کئی سو امریکی شہری افغانستان میں موجود ہیں۔ محکمہ خارجہ کسی بھی شہری یا مستقل سکونت کے حامل افراد کو راستہ دینے کی پیشکش جاری رکھے ہوئے ہے۔ جیسے ہی امریکی فوجی انخلاء ختم ہوا، وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بتایا تھا کہ پیچھے رہ جانے والے امریکیوں کی تعداد 200 سے کم ہے، اور زیادہ امکان ہے کہ ایک سو کے قریب ہو۔
بلنکن نے کہہ رکھا ہے کہ محکمہ خارجہ ان امریکی شہریوں سے رابطے میں ہے جنہوں نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن نجی تنظیمیں جیسا کہ ٹاسک فورس آرگو اور دیگر کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں ایسے درجنوں لوگوں سے سنا ہے کہ ابھی تک امریکی حکومت نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔
ہو سکتا ہے کہ طالبان کے ڈر سے بہت سے لوگ روپوش ہوں، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ وہ اپنے خاندان کے افراد کو ادھر چھوڑ جائیں۔
اگر دیگر لوگ افغانستان چھوڑنا چاہیں تو؟
انسانی حقوق کے گروپ اور افغانوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کم از کم دسیوں ہزار ایسے افراد ہیں جنہیں انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور انہیں راہ فرار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے امریکی حمایت یافتہ حکومت یا فوج کے لیے کام کیا، یا وہ نسلی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو ہم جنس پرست (ایل جی بی ٹی کیو) ہیں۔ کچھ اپنے طور پر دوسرے ممالک چلے گئے ہیں اور وہ پناہ گزینوں کے طور پر امریکہ یا کسی اور ملک جانے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
افغان ایویکAfghanEvac'' یعنی افغانوں کا انخلا، ایک سو سے زیادہ تنظیموں کا اتحاد ہے جو لوگوں کو افغانستان سے باہر نکلنے میں مدد کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان میں سے بہت سے گروپ سابق فوجیوں نے شروع کیے تھے۔ افغان ایویک کے نمائندوں نے حال ہی میں امریکی وزیرخارجہ انٹنی بلینکن سے ملاقات کی تاکہ امریکہ کو انخلاء کی کوششوں کو تیز کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
یہ گروپس کانگریس سے بھی مدد حاصل کر رہے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ خصوصی ویزے کے حصول کے دائرے کو وسیع کیا جائے گا اور ان میں غالباً ایسے افراد کو بھی شامل کیا جائے جنہوں نے افغان فوج کے چوٹی کے یونٹ میں خدمات انجام دی ہوں۔ بعض گروپس امریکی حکومت سے مزید مالی مدد کے خواہاں ہیں۔
سکاٹ مین ٹاسک فورس پائن ایپل کے بانی ہیں۔ ان کا کہنا ہے "ہمیں کچھ مدد کی ضرورت ہے، ہمیں واقعی ضرورت ہے۔" سکاٹ مین کا مقصد افغانستان میں لوگوں کو ملک سے باہر لے جانے کے لیے پروازوں کا بندوبست کرنا ہے۔
[اس میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے]