غزہ کی پٹی سے فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے اسرائیل پر کیے گئے اچانک حملے کو دہائیوں سے جاری اس تنازعے میں اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔
اسرائیل اور فلسطینی کے تنازعے میں اسرائیلی فورسز اور حماس کئی بار آمنے سامنے آچکے ہیں اور کئی مرتبہ ہفتوں پر محیط جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ تاہم حماس کی حالیہ کارروائی کو کئی اعتبار سے غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔
اس کارروائی کے بعد حماس ایک بار پھر عالمی خبروں اور تجزئیوں میں توجہ کا مرکز ہے۔ حماس کے قیام اور غزہ میں اس کے کںٹرول کو سمجھنے کے لیے غزہ کی پٹی کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔
غزہ کی پٹی اور حماس کی تشکیل
حماس کی تشکیل کی تاریخ بنیادی طور پر غزہ کی پٹی سے جڑی ہے۔اسرائیل اور مصر کے درمیان غزہ کا 40 کلو میٹر طویل اور 10 کلو میٹر چوڑائی رکھنے والے علاقہ غزہ اسٹرپ یا ’غزہ کی پٹی‘ بھی کہلاتا ہے۔
سن 1948 کی جنگ اور اردگرد کے علاقوں میں اسرائیل کے قیام سے قبل یہ علاقہ برطانیہ کے ’فلسطین مینڈیٹ‘ کا حصہ تھا۔
خیال رہے کہ پہلی عالمی جنگ تک فلسطین کا علاقہ سلطنتِ عثمانیہ میں شامل تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1922 میں اس وقت کی بین الاقوامی تنازعات حل کرنے کے لیے قائم کی گئی عالمی تنظیم لیگ آف نیشنز نے فلسطین کو برطانوی انتظامیہ کے حوالے کردیا تھا، جسے ’فلسطین مینڈیٹ‘ کہا جاتا ہے۔ غزہ بھی اس میں شامل تھا۔
بعدازاں 1947 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس مینڈیٹ کے اختتام سے قبل ہی فلسطینی علاقوں کو عربوں اور یہودیوں کے لیے الگ ریاست اسرائیل کے درمیان تقسیم کرنے کے منصوبے کی منظوری دی۔ اس منصوبے کے مطابق غزہ اور اس سے ملحقہ علاقے عربوں کو دیے گئے تھے۔
برطانوی مینڈیٹ 15 مئی 1948 کو ختم ہوا اور اسی دن جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
اس جنگ کی ابتدا ہی میں پڑوسی عرب ملک مصر کی افواج غزہ میں داخل ہوگئی تھیں۔
تاہم 1948 کی شدید جنگ میں اس علاقے میں عربوں کے ہاتھ سے بہت سے علاقے جانے کے بعد اس کی حدود سکڑ کر پٹی کی صورت میں رہ گئیں جسے غزہ کی پٹی کہا جاتا ہے۔
سن 1967 میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے علاقے بھی حاصل کرلیے۔ فلسطینی ان تینوں علاقوں کو اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی مجوزہ الگ ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اسرائیل کے قیام کے لیے ہونے والی جنگ کے دوران فلسطینیوں کی بڑی تعداد نے غزہ میں پناہ حاصل کی تھی۔ ان پناہ گزین خاندانوں کی آبادی بڑھ کر ایک اندازے کے مطابق 17 لاکھ سے زائد ہوگئی ہے جب کہ غزہ کی مجموعی آبادی لگ بھگ 21 لاکھ ہے۔
غزہ میں 1987 میں پہلی مزاحمتی تحریک اٹھی جسے ’انتفاضہ‘ کہا جاتا ہے۔ اسی برس حماس قائم ہوئی اور بعدازاں فلسطین کے ان علاقوں میں پھیل گئی، جو اسرائیل کے زیرِ کنٹرول ہیں۔
حماس یا اسلامی مزاحمی تحریک کو شیعہ اکثریتی ملک ایران کی مدد حاصل ہے جب کہ نظریاتی طور پر یہ اخوان المسلمون کی پیرو کار ہے جو 1920 کی دہائی میں مصر قائم ہوئی تھی۔
حماس اور الفتح
1990 کی دہائی میں اوسلو امن معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی قائم ہوئی جسے غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں پر محدود اختیارات دیے گئے۔
حماس نے 2007 میں صدر محمود عباس کی سربراہی میں فتح موومنٹ کے ساتھ مختصر خانہ جنگی کے بعد غزہ کا کنٹرول حاصل کیا تھا۔
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے تحت چلنے والی انتظامیہ مغربی کنارے میں قائم ہے۔
حماس نے 2006 میں فلسطینی پارلیمانی الیکشن کے بعد غزہ کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ اس کے بعد سے دوبارہ یہاں الیکشن منعقد نہیں ہوسکے ہیں۔
اس وقت حماس نے محمود عباس پر اپنے خلاف سازش کرنے کا الزام عائد کیا تھا جب کہ محمود عباس نے غزہ پر حماس کے کنٹرول کو بغاوت قرار دیا تھا۔
حماس اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتی اور 1990 کی دہائی میں پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے اوسلو معاہدے کی بھی مخالف ہے۔
اسرائیل سے تنازعات
غزہ کا کنٹرول حماس کے پاس جانے کے بعد اسرائیل کے ساتھ اس کا متعدد بار تصادم ہوچکا ہے۔
ان میں اکثر حماس کے غزہ سے اسرائیل پر راکٹ فائر کرنے سے شروع ہوئے جس کے جواب میں غزہ پر اسرائیلی فضائی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔
حماس کا عسکری ونگ ’الشہيد عز الدين القسام‘ بریگیڈ کہلاتا ہے جو اسرائیل میں جنگجو اور خود کش حملہ آور بھیجتا ہے۔
حماس اسرائیل کے خلاف اپنی عسکری کارروائیوں کو اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کا نام دیتی ہے۔
اپنے قیام کے لیے 1988 میں حماس نے جو چارٹر بنایا تھا اس میں اسرائیل کو تباہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
حماس 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے حاصل کردہ علاقوں کو واپس حاصل کرکے فلسطینی ریاست قائم کرنے کی علم بردار ہے۔
تاہم حماس اور اسرائیل کے درمیان کئی مرتبہ طویل مدت تک کی جنگ بندی بھی ہوتی رہی ہے جسے عربی میں ’ہدنہ‘ کہا جاتا ہے۔
حماس کو اسرائیل، امریکہ، یورپی یونین، کینیڈا، مصر اور جاپان نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
حماس کے اتحادی
فلسطینی علاقوں میں کارروائی کے ساتھ حماس مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی اوراسرائیل کی مخالفت کرنے والے اس اتحاد کا بھی حصہ ہے جس میں ایران، شام اور لبنان کی شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ شامل ہیں۔
اگرچہ غزہ حماس کا گڑھ ہے تاہم اسے دیگر فلسطینی علاقوں سے بھی مدد حاصل ہے۔
اس کے رہنما قطر سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس تحریر میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے حاصل کردہ معلومات شامل کی گئی ہیں۔