امریکہ کے صدر کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر وائٹ ہاؤس کے اولین مکین محل کی طرز پر بنے شاہانہ باغیچوں سے دور رہتے تھے جن میں بادشاہ یا ملکہ چہل قدمی کرتی تھیں۔
’آل دا پریذیڈنٹس گارڈنز‘ کتاب کی مصنفہ مارتھا میک ڈوول کے مطابق بکنگھم پیلس کے ایک دورے کے بعد جان کینیڈی کو ان باغوں کو بہتر کرنے کا خیال آیا۔
اٹھارہ ایکڑ پر محیط وائٹ ہاؤس کے سامنے اور پیچھے کے باغ امریکہ کے مختلف صدور کے اقدار کی ترجمانی کرتے رہے ہیں۔
میک ڈوول کے مطابق ان باغوں کی انتظامیہ نیشنل پارک سروس سنبھالتی ہے۔ لیکن اس میں وائٹ ہاؤس کے رہائشیوں، یعنی صدر اور ان کے خاندان کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے۔
امریکہ کے چھٹے صدر جان کوئنسی ایڈمز باغ میں کام کیا کرتے تھے۔26ویں صدر تھیوڈور روزویلٹ نے باغ کا ایگزیکٹو مینشن گرین ہاؤس ختم کردیا، جسے 15ویں صدر جیمز ایڈمز نے بنوایا تھا۔
جان کینیڈی، جو 35ویں صدر تھے نے روز گارڈن کی تعمیر نو کی۔
براک اوباما کی اہلیہ مشل اوباما نے ساؤتھ لان میں فوڈ گارڈن کا آغاز کیا۔
مشیل اوباما نے اس کے لیے ملک کے بانی اور تیسرے صدر تھامس جیفرسن کے گھر سے لیے گئے بیجوں اور پودوں کو استعمال کیا۔ آج یہاں 50 سے زائد سبزیاں اگتی ہیں۔
پئیر لا فا، جو امریکہ کے پہلے صدر کے لیے شہری منصوبہ بندی اور آرکیٹیکٹ کا کام کرتے تھے، نے صدارتی باغیچے کے لیے 75 ایکڑ کے باغ کی تجویز دی تھی۔ لیکن جارج واشنگٹن چھوٹی حکومت پر یقین رکھتے تھے۔
انہوں نے وائٹ ہاؤس کے باغ دو ایکڑ تک محدود کیے۔ لیکن انہیں بعد میں بڑھا کر 18 ایکڑ کر دیا گیا۔
جیفرسن، جنہوں نے برطانوی بادشاہت سے خود کو آزاد کیا تھا، وہ بھی بادشاہ بننے سے پرہیز کرتے تھے۔
میک ڈوول کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس امریکہ کے ہارٹی کلچر کی روایت کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔
ان کے بقول ’’میری تحقیق یہ نہیں کہتی کہ وائٹ ہاؤس امریکہ میں باغیچوں کو سنبھالنے کی طرز کی قیادت کرتا ہے، بلکہ کبھی وہ قیادت کر رہے ہوتے ہیں، تو کبھی وہ ملک میں جاری رجحان کو استعمال کرتے ہیں۔‘‘
میلانیا ٹرمپ پر 2020 میں روز گارڈن کی نئے سرے سے تعمیر پر تنقید ہوئی تھی۔ لیکن میک ڈوول کے مطابق یہ تعمیر نو بروقت تھی۔
ان کے مطابق باغ بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے باغ 1923 تک عوام کے لیے کھلے رہتے تھے۔ لیکن ملک کے 30ویں صدر کیلون کولیج نے ان باغوں کو عام عوام کے لیے بند کر دیا تھا۔
موجودہ برسوں میں وائٹ ہاؤس کے باغ عوام کے لیے سال میں دو بار یعنی خزاں اور بہار کے دوران کسی ہفتے کے اختتام کے دوران کھولے جاتے ہیں۔