پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس آ رہے ہیں جب کہ اُن کی جماعت پارٹی قائد کے استقبال کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کیے ہوئے ہے۔
ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے عوامی اور سیاسی حلقوں میں مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ایسے میں یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے سخت مؤقف رکھنے والے نواز شریف وطن واپسی پر کیا بیانیہ اپنائیں گے؟ کیا اُن کی پارٹی ملک کے معروضی حالات میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنانے کی متحمل ہو سکتی ہے؟
نواز شریف کی آمد سے قبل اُن کی صاحبزادی مریم نواز اور سابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے لاہور کے مختلف علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں بھی شروع کر رکھی ہیں۔
نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جو وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے تھے۔ بعدازاں بیماری کے باعث اُنہیں لاہور کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
عدالتی حکم پر 2019 میں اُنہیں چار ہفتے کے لیے علاج کی غرض سے برطانیہ جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ مقررہ مدت میں واپس نہ آنے پر عدالت نے انہیں مفرور قرار دیتے ہوئے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو اُن کی جماعت کے لوگوں کی جانب سے یہ پیٖغام دیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی صورت میں اُنہیں اور اُن کی جماعت کو نقصان ہو سکتا ہے۔
'پارٹی منشور ہی اب بیانیہ ہو گا'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتحار احمد کہتے ہیں کہ کوئی بھی سیاست دان ملک سے باہر رہ کر اپنا سیاسی بیانیہ نہیں بنا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم لندن میں بیٹھ کر ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب تو کرتے رہے ہیں، لیکن عوام میں آ کر بات کرنا مختلف ہوتا ہے۔
افتحار احمد کے بقول نواز شریف یا اُن کی جماعت کا کوئی منشور جاری ہو گا تو اصل میں وہی اُن کا بیانیہ ہو گا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اپنا بیانیہ اِس لیے نہیں بنا پائے جس کی ایک وجہ پاکستان کی سیاست ہے جہاں اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔
اُن کے بقول نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے بعد متاثر ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ سے شکایات تھیں، لیکن عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
اُن کے بقول نواز شریف کے لیے بیانیہ تشکیل دینا کافی مشکل تھا کیوں کہ ایک طرف نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے شکایات تھیں تو دوسری طرف عمران خان صاحب کے خلاف جو تحریک عدم اعتماد تھی وہ بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حق میں بھی ووٹ دیا جس پر سوال اُٹھے تھے۔
مجیب الرحمن شامی کے بقول ان حالات میں نواز شریف کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر میدان میں اُتریں۔
اُن کے بقول 'پاور پالیٹکس' میں اپنے حریف کو گرانے کے لیے سب کچھ کیا جا سکتا ہے اور نواز شریف نے بھی ایسا ہی کیا۔
'شہباز شریف اپنے بھائی کی مارکیٹنگ کر رہے ہیں'
مجیب الرحمٰن شامی کے بقول شہباز شریف نواز شریف کی مارکیٹنگ کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کے دور میں ملک کے حالات میں بہتری آئی تھی اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر مسلم لیگ (ن) عوام میں جا رہی ہے۔
اُن کے بقول سی پیک، موٹرویز، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور دہشت گردی میں کمی بلاشبہ نواز شریف کے دور میں ہی آئی تھی۔
مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ شہباز شریف اسی بنیاد پر نواز شریف کے لیے عوام کی پرانی محبت دوبارہ جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
افتحار احمد کہتے ہیں کہ ایک بار پھر قوم کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی سے ملک میں ترقی اور خوشحالی کا دور ہو گا۔
اُن کے بقول یہی فضا عمران خان کو وزیرِ اعظم بنانے سے قبل بنی ہوئی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فردِ واحد سے ملک ترقی نہیں کرتے۔
نواز شریف کا احتسابی بیانیہ
نواز شریف لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک اپنے متعدد بیابات میں کہہ چکے ہیں کہ چند طاقت ور شخصیات کا احتساب ہونا چاہیے جن پر وہ اکثر و بیشتر نام لے کر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔
گزشتہ ماہ نواز شریف نے اپنی جماعت کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) فیض حمید، سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ اور ثاقب نثار قوم کے 'مجرم' ہیں اور ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
نواز شریف کے اِس خطاب کے محض چند دِن بعد ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما جاوید لطیف نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) جج صاحبان اور جنرل صاحب کا احتساب نہیں چاہتی۔
تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کے بقول اِس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ وہ ججوں اور جرنیلوں کا احتساب اِس طریقے سے جلسوں میں تو نہیں کر سکتے۔
اُن کے بقول اِسی طرح اگر وہ ریٹائر ہونے والے جرنیلوں پر برسیں گے تو اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور حاضر سروس جرنیل کی ناراضگی مول لینا ویسے ہی مشکل ہے۔
افتحار احمد کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے اس بیانیے سے اس لیے پیچھے ہٹی ہے کیوں کہ اُن کی جماعت کے لوگوں کے مطابق پارٹی تاحال اس نوعیت کے انقلابی فلسفے کے لیے تیار نہیں ہے۔
فورم