امریکہ نے کہا ہے کہ عراق میں نئی حکومت کے قیام کے بعد اگر ضرورت پڑی تو امریکہ سنی جنگجووں کے خلاف لڑنے والی عراقی سکیورٹی فورسز کو مزید مدد فراہم کرسکتا ہے۔
'وہائٹ ہاؤس' کے ترجمان جوش ارنسٹ کے مطابق امریکہ کی جانب سے عراق کو مزید فوجی مدد کی فراہمی وہاں ایک ایسی حکومت کے قیام سے مشروط ہے جو تمام طبقات کی نمائندہ ہو۔
جمعے کو 'وہائٹ ہاؤس' میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے جوش ارنسٹ نے کہا کہ عراقی شدت پسندوں پر امریکہ کے حالیہ فضائی حملوں کا مقصد عراق میں موجود امریکی اہلکاروں کا تحفظ اور 'سِنجار' کے پہاڑی علاقے میں پیدا ہونے والی بحرانی صورتِ حال پر قابو پانا ہے۔
خیال رہے کہ سنجار کے علاقے میں عراق کی عیسائی اور یزیدی اقلیت کے وہ ہزاروں افراد پناہ گزین ہیں جنہیں رواں ہفتے 'الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام (داعش)' کے جنگجووں کی اچانک پیش قدمی کے باعث اپنا گھر بار چھوڑ کر بے سرو سامانی کے عالم میں محفوظ مقامات کی جانب فرار ہونا پڑا تھا۔
'وہائٹ ہاؤس' کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ یکسو اور پرعزم ہے کہ اسے عراق اور عراق کے نیم خودمختار کرد علاقے کی سکیورٹی فورسز کو سنی شدت پسندوں سے لاحق خطرے کے مقابلے میں مدد فراہم کرنی ہے۔
لیکن ترجمان نے واضح کیا کہ امریکہ کی جانب سے کوئی بھی مدد "طویل المدت" نہیں ہوگی اور نہ ہی امریکی زمینی فوج کے دستے عراق بھیجے جائیں گے۔
جوش ارنسٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ عراق کے عیسائیوں اور کردوں کی خراب اور ابتر صورتِ حال اور سنی جنگجووں کی حالیہ پیش قدمی کی اطلاعات کی بنیاد پر صدر اوباما امریکی فوج کو عراق میں فضائی کارروائیوں کی اجازت دینے پر مجبور ہوئے۔
ترجمان کے مطابق صدر اوباما کی جانب سے فوجی کارروائی کی منظوری کی سب سے بڑی وجہ وہ رپورٹیں بنیں جو رواں ہفتے صدر اوباما کو پیش کی گئی تھیں جن میں علاقے کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور عراقی اقلیتوں کو جنگجووں کی جانب سے لاحق خطرات کا ذکر کیا گیا تھا۔
ترجمان نے بتایا کہ امریکی حملے کی منظوری دینے کی دوسری بڑی وجہ عراق کے شمالی شہر اور عراقی کردستان کے دارالحکومت اِربل کی جانب جنگجووں کی پیش قدمی سے متعلق صدر کو دی جانے والی انٹیلی جنس اطلاعات تھیں۔
خیال رہے کہ اِربل میں امریکہ کا قونصل خانہ قائم ہے جب کہ ان دنوں وہاں کئی امریکی فوجی مشیر بھی موجود ہیں جو کرد فوج 'پیش مرگہ' کو سنی جنگجووں کے خلاف کارروائی میں مشاورت اور تیکنیکی مدد فراہم کر رہے ہیں۔
'وہائٹ ہاؤس' کے ترجمان نے بتایا کہ ان اطلاعات کی بنیاد پر صدر اوباما نے یہ فیصلہ کیا کہ اِربل میں موجود امریکی حکام کےتحفظ اور سلامتی کے لیے جنگجووں کے خلاف زیادہ موثر فوجی کارروائی کی ضرورت ہے۔
ترجمان نے کہا کہ صدر نے امریکی فوج کو اپنا فضائی آپریشن مکمل کرنے کے لیے کوئی ڈیڈلائن نہیں دی ہے اور اہداف کا تعین بھی فوجی قیادت پر چھوڑ دیا ہے۔ ترجمان نے عندیہ دیا کہ عراقی جنگجووں کےخلاف مزید امریکی فضائی حملے بھی متوقع ہیں۔