رسائی کے لنکس

انتہا پسندانہ پیغامات کے خلاف مسلمان اپنا کردار ادا کریں: امریکہ


وائٹ ہاوس نے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لیے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ "جب تک یہ طے نہ کر لیا جائے کہ اصل معاملہ کیا ہے، امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ مکمل طور پر بند کیا جائے۔"

صدر براک اوباما کی طرف سے شدت پسند گروپ داعش کے خلاف لڑائی کو امریکہ اور اسلام کے درمیان لڑائی تصور نہ کرنے کے بیان کے ایک ہی روز بعد وائٹ ہاؤس نے اس موقف کا ایک بار پھر بھرپور اعادہ کرتے ہوئے امریکہ میں مقیم مسلمان شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔

ترجمان جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ "ہم چاہتے ہیں کہ مسلم برادری کے رہنما اٹھ کھڑے ہوں اور انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے نفرت انگیز اور انتہا پسندانہ پیغامات کی مذمت کرتے ہوئے اپنا موقف پرزور انداز میں پیش کریں۔"

اتوار کو صدر اوباما نے امریکی عوام سے خطاب میں کہا تھا کہ داعش "اسلام کی نمائندگی نہیں کرتا" اور ان کے بقول "لاکھوں محب وطن امریکی مسلمانوں نے اس کے نفرت انگیز نظریے کو مسترد کیا ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں "دہشت گردی کو شکست دینے میں کامیاب ہونا ہے تو ہمیں مسلم برادری کو اپنی مضبوط ترین اتحادی کے طور پر ساتھ رکھنا ہو گا چہ جائیکہ انھیں نفرت اور شکوک و شبہات پر پرے دھکیل دیں۔"

وائٹ ہاوس کے ترجمان ارنسٹ نے صدر کے پیغام کو دہراتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن یہ مسلم برادری کے رہنماؤں کے لیے براہ راست اور پرزور پیغام تھا۔

"اگر وہ ہماری وفاقی حکومت، ہمارے قانون نافذ کرنے والوں، انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں اور شدت پسندوں سے نبردآزما ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر کام کریں تو مزید موثر ہو گا۔"

ادھر وائٹ ہاوس نے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لیے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ "جب تک یہ طے نہ کر لیا جائے کہ اصل معاملہ کیا ہے، امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ مکمل طور پر بند کیا جائے۔"

قومی سلامتی کے لیے صدر اوباما کے نائب مشیر بین رہوڈز نے 'سی این این' کو بتایا کہ ٹرمپ کا بیان "بحیثیت امریکی ہماری روایات کے بالکل برعکس ہے"۔

انھوں نے اس ضمن میں مذہبی آزادی کے تحفظ کے مسودہ قانون اور امریکی مسلمانوں کی امریکہ کے لیے خدمات کا تذکرہ کیا۔

"یہ ہماری سلامتی کے بھی خلاف ہے، حقیقت میں داعش اس لڑائی کو امریکہ اور اسلام کے درمیان لڑائی ظاہر کرنا چاہتا ہے اور اگر مذہب کی بنیاد پر یہ شروع کر دیں کہ اس ملک میں کون آئے گا، تو (ایسا کرنا) اس نظریے کو قبول کرنے کے مترادف ہو گا۔"

ان کے بقول اس طرح سے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی جس پر ہماری توجہ ہونی چاہیئے، امریکہ اور دنیا بھر میں مسلم برادری کے ساتھ شراکت داری بہت مشکل ہو جائے گی۔

XS
SM
MD
LG