عالمی ادارہ ِ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 76 لاکھ افراد کینسر کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ یہ تعدادہر سال ایڈز، ملیریا اور تب ِ دق جیسی بیماریوں سے ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں چھوت کی بیماریوں کو عموما زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ مگر عالمی ادارہ ِ صحت کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق وہ بیماریاں جو ایک انسان سے دوسرے انسان کو نہیں لگ سکتیں عالمی سطح پر زیادہ اموات کا سبب بن رہی ہیں۔
ایلا ایلوان عالمی ادارہ ِ صحت سے منسلک ہیں اور اس سلسلے میں تحقیق کرنے والے ماہرین میں شامل ہیں۔ان کا کہناہے کہ دنیا بھر میں ہر سال پانچ کروڑ اسی لاکھ اموات میں سے تین کروڑ پچاس لاکھ افراد امراض ِ دل، سٹروک، ذیابیطیس ، کینسر اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ جو عالمی سطح پر ہونے والی کل اموات کا 60 فیصد ہیں۔
عالمی ادارہ ِ صحت کے مطابق ان بیماریوں کی وجوہات میں بلند فشار ِ خون، ذیابیطیس، تمباکو نوشی، موٹاپا اور جسمانی سرگرمیاں نہ کرنا شامل ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں ان بیماریوں کی روک تھام پر اربوں ڈالرز صرف ہورہے ہیں جس کی وجہ لاکھوں افراد غربت کا نشانہ بن رہے ہیں۔
امریکی ریاست میسا چوسسٹس میں قائم ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ بلوم کہتے ہیں کہ ان بیماریوں کے باعث دنیا بھر میں طبی اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر جیمز ہاسپیڈلز عالمی ادارہ ِ صحت سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق امریکہ، بھارت یا چین جیسے بڑے ممالک ہی ان مسائل کا شکار نہیں ہیں بلکہ ٹرینی ڈیڈ، ٹوبیگو، اور برباڈوس جیسے چھوٹے ممالک کو بھی ان طبی مسائل کا سامنا ہے۔ ان چھوٹے ممالک میں ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطیس جیسے امراض کی روک تھام پر اٹھے والے اخراجات ان کی مجموعی قومی پیداوار کے پانچ سے آٹھ فیصد کے مساوی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سادہ خوراک اور روزمرہ زندگی کے انداز میں تبدیلی لا کر کینسر، ذیابیطیس، سٹروک اور دمے جیسی بیماریوں کاخطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔