کشمیر پر سخت گیر مؤقف رکھنے والے علیحدگی پسند رہنما مسرت عالم بٹ کو استصوابِ رائے کی حمایتی تنظیم کل جماعت حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا ہے۔ چودہ ماہ قبل تک حریت کانفرنس کے اس دھڑے کے سربراہ سید علی گیلانی تھے جو چند روز قبل اکیانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔
پچاس سالہ مسرت عالم گزشتہ کئی برس سے مختلف الزامات کے تحت بھارتی جیل میں قید ہیں۔ وہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی تنظیم جموں و کشمیر مسلم لیگ کے سربراہ ہیں جو حریت کانفرنس کی ایک اہم اکائی ہے۔
منگل کو حریت کانفرنس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مسرت عالم کو اتحاد کا قائم مقام چیئرمین اور شبیر احمد شاہ اور ایک اور علیحدگی پسند لیڈر غلام احمد گلزار کو وائس چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔
مولوی بشیر احمد عرفانی بدستور 'اے پی ایچ سی' کے سیکرٹری جنرل ہوں گے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دیگر کمیٹیوں کے ذمہ داران بھی اپنی جگہ بدستور کام کرتے رہیں گے۔
وائس آف امریکہ کو بھیجی گئی ایک ای میل میں اتحاد کے ترجمان نے کہا ہے کہ مسرت عالم کو کل جماعتی حریت کانفرنس کا نیا چیئرمین بنانے کا فیصلہ اس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ "آنے والے وقت میں حالات ٹھیک ہو نے کے بعد باضابطہ طور پر حریت کانفرنس کے آئین کے مطابق الیکشن کے ذریعے ذمہ داروں کا انتخاب کیا جائے گا۔"
مسرت عالم کون ہیں؟
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے زیندار محلے میں جولائی 1971 میں پیدا ہونے والے مسرت عالم کو بھارتی سیکیورٹی حکام جموں و کشمیر میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا 'پوسٹر بوائے' قرار دے چکے ہیں۔
خیال رہے کہ سرینگر کے پرانے تاریخی شہر کا گنجان آبادی والا زیندار محلہ پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا آبائی علاقہ ہے تاہم اُن کے بیشتر قریبی رشتے دار گزشتہ چار دہائیوں کے دوران شہر کے مضافات میں قائم ہونے والی کالونیوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے مسرت عالم پر مختلف الزامات کے تحت 27 فوج داری مقدمات درج کر رکھے ہیں۔ انہیں متعدد بار سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بھی نظر بند کیا جاتا رہا ہے۔
انہوں نے مجموعی طور پر 17 برس جیلوں میں گزارے ہیں۔
مسرت عالم کو مارچ 2015 میں مفتی محمد سعید کی سربراہی میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی۔بھارتیہ جنتا پارٹی مخلوط حکومت کے قیام کے فوری بعد رہا گیا گیا تو پورے بھارت میں ایک بڑا سیاسی تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔
اس کی گونج بھارتی پارلیمان میں بھی سنائی دی تھی جس کے بعد انہیں پھر گرفتار کیا گیا اور عدالتوں کی طرف سے کئی مقدمات میں بری ہونے کے باوجود وہ جیل میں ہیں۔
حکومت کا اصرار ہے کہ وہ بھارت کی سالمیت اور سیکیورٹی کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ منگل کو حریت کانفرنس کا چیئرمین مقرر ہونے سے پہلے مسرت عالم اتحاد کے اس دھڑے میں سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔
خیال رہے کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین سید علی گیلانی بدھ کو اکیانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کے اہلِ خانہ نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے اہلِ خانہ کی موجودگی کے بغیر ہی اُن کی میت کی زبردستی تدفین کر دی تھی۔
پولیس کا یہ مؤقف تھا کہ پولیس نے میت کو گھر سے قبرستان تک لے جانے کو آسان بنایا کیونکہ یہ خدشہ تھا کہ شر پسند عناصر صورتِ حال کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ہفتے کو بھارتی پولیس نے سید علی گیلانی کی وفات کے بعد اُن کے اہلِ خانہ کی جانب سے بھارت مخالف نعرے لگانے اور اُن کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹنے کے الزام میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
اس متنازع قانون میں 2019 میں ترمیم کرتے ہوئے کسی بھی شخص کو بغیر شواہد سامنے لائے چھ ماہ سے سات برس تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قانون کو انسانی حقوق سے متصادم قرار دیتی رہی ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی سید علی گیلانی کے اہلِ خانہ کے خلاف مقدمے کے اندراج کی مذمت کی تھی۔
دوسری جانب وائس آف امریکہ کے رابطے کرنے پر سید علی گیلانی کے اہل خانہ نے پولیس کے مؤقف کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس موقع پر بنائی گئی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں۔جس سے پولیس کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی ہے۔
سید علی گیلانی کے خاندار کے ایک رکن نے کہا کہ "بدھ کی رات کیا ہوا، یہ دنیا جان چکی ہے۔ تصویریں جھوٹ نہیں بولتیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں کہنا ہے۔"
قبل ازیں ڈاکٹر نعیم گیلانی نے کہا تھا کہ اُن کے والد نے یہ وصیت کی تھی کہ انہیں سرینگر کےمزارِ شہداء میں دفن کیا جائے لیکن حکام نے اس کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا۔