عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ تنازعات کے شکار دنیا کے مختلف ملکوں میں گزشتہ دو سالوں کے دوران اسپتالوں پر ہونے والے حملوں میں لگ بھگ ایک ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
جمعرات کو جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں ادارے نے ان حملوں کو انسانی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے تنازعات والے ملکوں میں حکومتوں اور مسلح گروپوں کی طرف سے شفا خانوں کے تحفظ کا خیال نہ رکھنے خطرناک رجحان کا تذکرہ کیا۔
جنیوا میں قائم عالمی ادارہ صحت کی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق سال 2014ء اور 2015ء میں مشرق وسطیٰ، افریقہ اور دیگر علاقوں اسپتالوں اور شفاخانوں پر 594 حملے ہوئے جن میں طبی عملے، معاونین، مریضوں اور ان کے تیماداروں سمیت 959 افراد ہلاک اور 1500 سے زائد زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں اس امر پر سب سے زیادہ تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 60 فیصد سے زائد واقعات میں جان بوجھ کر طبی مراکز کو نشانہ بنایا گیا جب کہ 20 فیصد حادثاتی طور پر نشانہ بنے۔
ان میں پچاس فیصد سے زائد حملے ادارے کے مطابق سرکاری فورسز جب کہ ایک تہائی غیر ریاستی مسلح گروپوں کے حملوں کی زد میں آئے۔
جنیوا کنونشن کے مطابق اسپتالوں، ڈاکٹروں اور مریضوں کو نشانہ بنایا جانا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایسے حملوں کو مسترد کرتے ہوئے تمام فریقین پر زور دیتی آئی ہے کہ وہ طبی مراکز کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
لیکن اس کے باوجود سلامتی کونسل کے بعض بااثر رکن ممالک بھی ایسے حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔
گزشتہ سال افغانستان میں ایک اسپتال امریکی فورسز کی فضائی کارروائی کی زد میں آگیا تھا جس سے وہاں موجود 42 افراد مارے گئے تھے۔ پینٹاگان اس کارروائی کو انسانی غلطی قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کر چکا ہے۔
شام اور یمن میں بھی مختلف اسپتال اور شفاخانے وہاں جاری جنگی صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔