سوئیڈن اور فن لینڈ کی جانب سے نیٹو میں شمولیت کے لیے رجوع کرنے کے اعلان کے بعد یورپ میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہے البتہ روس نے نیٹو میں ممکنہ توسیع سے پہلے ہی اس کے نتائج سے خبردار کیا ہے جب کہ نیٹو کا رکن ترکی بھی مخالفت کر رہا ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد شمالی یورپ کے نورڈک کہلانے والے خطے کے دو ممالک سوئیڈن اور فن لینڈ نے بھی دفاعی اتحاد نیٹو میں شامل ہونے کے لیے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر روس نے شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔
روس پہلے ہی یورپ میں نیٹو کے ارکان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو اپنے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ روس نے یوکرین کے خلاف جن وجوہ کو اپنی کارروائیوں کی بنیاد بنایا تھا ان میں یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکنا بھی شامل تھا۔
ان حالات میں شمالی یورپ کے ان دو ممالک کے نیٹو میں شامل ہونے کے اعلان پر روس کا ردِعمل غیر متوقع نہیں ہے۔ ان دو ممالک میں سے فن لینڈ کے ساتھ اس کی 1300 کلو میٹر طویل سرحد لگتی ہے۔ اس لیے روس نے اس اعلان کے بعد ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے یورپ کی سیکیورٹی بہتر ہونے میں مدد نہیں ملے گی۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ان ممالک کے نیٹو میں شامل ہونے پر ردِ عمل میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کس حد تک جا سکتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ، کینیڈا اور مغربی یورپ کے دیگر ممالک نے 1949 میں ’نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن‘ (نیٹو) کی بنیاد رکھی تھی۔ سوویت یونین کے مقابلے میں مشترکہ دفاع اس اتحاد کا بنیادی مقصد تھا۔
اس کے علاوہ اس خطے میں سوویت یونین اور کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کے مقابلے کے لیے بھی معاشی اور دفاعی قوت کی ضرورت تھی جس کے لیے امریکہ نے مارشل پلان متعارف کرایا تھا۔
اس کے مقابلے میں سوویت یونین نے معاہدہ ’وارسا‘ کیا تھا جس کے بعد مغربی و مشرقی کیمپ بنے اور سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی نیٹو اتحاد فعال رہا جسے روس آج بھی خطے میں اپنا حریف سمجھتا ہے۔
نیٹو میں شمولیت کا فیصلہ کیوں؟
سوئیڈن اور فن لینڈ عسکری طور پر ’غیر وابستہ‘ یا غیر جانب دار ممالک تصور ہوتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ خطے میں دفاعی اور عسکری اثر و رسوخ کو وسعت دینے کی دوڑ میں کسی کیمپ کا حصہ نہیں ہیں۔
سوئیڈن اور فن لینڈ اگرچہ نیٹو کے قریبی ممالک تصور ہوتے ہیں لیکن روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات برقرار رکھنا ان ممالک اور بالخصوص فن لینڈ کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ رہا ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جس طرح خطے میں اپنا دائرۂ اثر بڑھانے کے صدر پوٹن کے عزائم سامنے آئے ہیں تو ان ممالک میں بھی سلامتی سے متعلق نئے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ سوئیڈن اور فن لینڈ میں سیکیورٹی پالیسی سے متعلق رائے عامہ میں تبدیلی ہو رہی ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ماضی میں فن لینڈ میں نیٹو کی رکنیت کی حمایت 20 سے 30 فی صد رہی ہے لیکن اب یہ 70 فی صد تک جاپہنچی ہے۔
یہ دونوں ممالک اب اپنے تحفظ کے لیے نیٹو کی جانب دیکھتے ہیں اور خاص طور پر امریکہ سے تعاون کے لیے پر امید ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ بھی اس سلسلے میں دونوں ممالک کو حمایت کا عندیہ دے چکے ہیں۔
نیٹو میں شمولیت سے کیا ہوگا؟
شمالی یورپ میں نورڈک کہلانے والے اس خطے میں فن لینڈ اور سوئیڈن کے علاوہ ناروے، ڈنمارک اور آئس لینڈ بھی شامل ہیں۔ ان ممالک کا ایک دفاعی اتحاد ’نورڈک ڈیفنس کوآپریشن‘ بھی موجود ہے جو باہمی تعاون پر زیادہ زور دیتا ہے لیکن نیٹو میں سوئیڈن اور فن لینڈ کی شمولیت سے ان کی افواج ایک مشترکہ کمانڈ کا حصہ بن جائیں گی۔
سوئیڈن اور فن لینڈ کے علاوہ نورڈک خطے کے باقی تینوں ممالک پہلے ہی نیٹو اتحاد میں شامل ہیں۔ ان دونوں کی نیٹو میں شمولیت سے بحیرہ بالٹک مکمل طور پر نیٹو کی گرفت میں آجائے گا۔
بحیرہ بالٹک روس کے اہم ترین شہر سینٹ پیٹرز برگ اور علاقے کیلنگراڈ ایکسکلیو تک بحری رسائی کے لیے اہم ہے۔
کیلنگراڈ ایکسکلیو پولینڈ اور لتھونیا کے درمیان روس کا علاقہ ہے۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب ریاستیں آزاد ہوئیں تو کلینگراڈ جغرافیائی طور پر روس سے کٹنے کے بعد بھی اس کا حصہ رہا۔
کسی ملک کا وہ علاقہ یا حصہ جو جغرافیائی طور پر اس کے کٹا ہوا ہو انہیں ایکسکلیو کہا جاتا ہے جب کہ جو علاقے کسی دوسرے ملک کے علاقوں سے گھرے ہوئے ہوں انہیں انکلیو کہا جاتا ہے۔
رکنیت کے امکانات
سوئیڈن اور فن لینڈ پہلے ہی نیٹو کے قریبی اتحادی تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ دفاعی اتحاد کی کارروائیوں اور فضائی نگرانی میں مدد کرتے رہے ہیں۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ دونوں ممالک نیٹو کی رکنیت کی شرائط پوری کرتے ہیں۔ ان شرائط میں فعال جمہوریت اور پڑوسیوں سے ان کے تعلقات بھی اچھے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک کی افواج نیٹو کے قدم بہ قدم چلنے کے لیے بھی تیار ہیں۔یوکرین پر حملے کے بعد ان ممالک نے نیٹو کے ساتھ معلومات کا تبادلہ بڑھایا تھا اور اس جنگ پر ہونے والے اہم اجلاسوں میں یہ ممالک شریک رہے ہیں۔
دونوں ہی ممالک اپنی مسلح افواج میں جدتیں لارہے ہیں اور جنگی آلات اور ہتھیاروں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ فن لینڈ درجنوں جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ایف-35 جنگی طیاروں کی خریداری کر رہا ہے۔ سوئیڈن کی فضائیہ میں بھی جدید لڑاکا طیارے گریپن شامل ہیں۔
فن لینڈ کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنی مجموعی قومی پیداوار کا دو فی صد دفاعی بجٹ پر خرچ کرنے کی نیٹو کی گائیڈ لائنز پر عمل پیرا ہے۔
سوئیڈن نے بھی اپنا دفاعی بجٹ بڑھانا شروع کر دیا ہے اور 2028 تک مطلوبہ شرح پر پہنچنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ اس وقت نیٹو میں شامل ممالک کے دفاعی اخراجات کی اوسط شرح 1.6 فی صد ہے۔
ترکی کی مخالفت
نیٹو میں شامل ترکی کے صدر طیب اردوان نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ سوئیڈن اور فن لینڈ کی اتحاد میں شمولیت کے حامی نہیں ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے رکنیت دینے کے فیصلے کو ویٹو کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
صدر اردوان اس مخالف کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سوئیڈن اور دیگر سکینڈے نیوئین ممالک مبینہ طور پر کرد عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں جنہیں ترکی دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔
ترکی نے ان دودنوں ممالک کو نیٹو کی رکنیت دینے کے لیے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی سرزمین پر موجود کرد عسکریت پسند گروہوں کی حمایت ختم کریں اور ترکی کو بعض ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندیاں بھی ختم کی جائیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ترکی کے یہ مطالبات برلن میں جاری نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی راہداریوں میں سامنے آئے ہیں۔
پیر کو نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹالٹنبرگ نے توقع ظاہر کی کہ سوئیڈن اور فن لینڈ کی رکنیت پر ترکی کے تحفظات جلد دور ہوجائیں گے اور ترکی کے اٹھائے گئے نکات ان دونوں ممالک کی اتحاد میں شمولیت میں رکاوٹ کا باعث نہیں بنیں گے۔
برلن میں موجود امریکہ کے وزیرِِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس معاملے کی تفصیلات میں جانے سے گریز کرتے ہوئے اسٹالٹنبرگ کے موقف کی تائید کی ہے۔
ترکی کے وزیرِ خارجہ چاؤش اولو نے بھی سوئیڈن اور فن لینڈ کے وزرائے خارجہ سے گفتگو کو حوصلہ افزا قرار دیا ہے۔ دونوں ممالک نے ترکی کے تحفظات سے متعلق تجاویز بھی دی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ترکی نے سوئیڈن اور فن لینڈ میں موجود کرد تنظیموں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت انہیں فراہم کردیے ہیں۔
انہوں نے خاص طور پر سوئیڈن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں گزشتہ ہفتے کرد عسکریت پسند گروپ پی کے کے کا اجلاس ہوا ہے۔ اس تنظیم کو امریکہ اور یورپی یونین دہشت گرد قرار دے کر پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔
البتہ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ ترکی نیٹو میں توسیع کا مخالف نہیں اور یورپی ممالک کے اس اتحاد میں شامل رکھنے کی آزادانہ پالیسی کا حامی ہے۔
ترکی کی تائید کیوں ضروری ہے؟
ترکی کی جانب سے سوئیڈن اور فن لینڈ کو نیٹو میں شامل کرنے کی مخالفت اتحاد میں شامل ممالک کے لیے بھی حیرت کا باعث بنی تھی۔ تاہم ترکی کے مؤقف کو اس لیے اہمیت دی جا رہی ہے کہ نئے رکن کی شمولیت کے لیے نیٹو میں شامل 30 ممالک کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے جن میں ترکی بھی شامل ہے۔
’رائٹرز‘ کے مطابق نیٹو حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر نیٹو کے 70 سال سے اتحادی ترکی پر اپنے مؤقف سے دست بردار ہونے کے لیے شدید دباؤ ہے۔ سوئیڈن اور فن لینڈ کے نیٹو میں شامل ہونے سے بحیرہ بالٹک میں اس دفاعی اتحاد کی طاقت میں بڑا اضافہ ہوگا۔
سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے نیٹو دونوں ممالک کو اتحاد میں شامل کرنے کا عمل تیزی سے مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اگر ترکی کے تحفطات دور کردیے جاتے ہیں تو ان ممالک کی رکنیت کے لیے چند ہفتوں میں منظوری حاصل کر لی جائے گی۔ البتہ تمام اتحادی ممالک کی پارلیمنٹ سے اس فیصلے کی توثیق میں ایک سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
نیٹو کے تمام رکن ممالک کی پارلیمنٹ سے مںظوری کے بغیر نئے ارکان کو نیٹو کی مشترکہ دفاع کی اس شق کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا جس کے مطابق کسی ایک رکن ملک پر حملہ تمام نیٹو ممالک کے خلاف جارحیت قرار دی جائے گی۔
روس کا ردِعمل
ابتدائی طور پر روس نے سوئیڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی صورت میں ان دونوں ممالک سے تعلقات متاثر ہونے کی تنبیہ کی ہے۔ ساتھ ہی مختلف اقدامات کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن ابھی تک کسی واضح اقدام کا اعلان نہیں کیا۔
’اے پی‘ کے مطابق روس فن لینڈ سے ملحقہ اضلاع سے اپنی فوج یوکرین منتقل کرچکا ہے جہاں ان یونٹس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
نیٹو کے بعض ممالک میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ فن لینڈ اور سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کے بعد روس بالٹک کے خطے میں اپنا دفاع مضبوط کرنے کے لیے نیٹو اتحادی پولینڈ اور لیتھونیا کے درمیان کیلنگراڈ ایکسکلیو کے اپنے علاقے میں جوہری ہتھیار یا مزید ہائپر سونک میزائل نصب کر سکتا ہے۔
روس نے تاحال ان ممالک کو نیٹو میں شمولیت سے روکنے کے لیے کوئی متوقع اقدام نہیں کیا ہے۔ لیکن روسی طیاروں کی جانب سے ان ممالک کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
جمعرات کو روس کے ایوان صدر نے کہا تھا کہ اس کے ردعمل کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ نیٹو اپنی تنصیبات روس کی سرحد کے کتنے قریب تک منتقل کرتا ہے۔
[اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ’اے پی‘ اور ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں]