لندن —
ایک عظیم مصنف کا قول ہے کہ ، ''جس میں جیتنے کی چاہ نہیں ہوتی ہے وہ پہلےسے ہارے ہوئے ہوتے ہیں ۔''ہم اپنےبڑوں سے یہ نصیحت سنتے آئے ہیں کہ، کامیابی بھی ان ہی لوگوں کا مقدر بنتی ہے جواسے پانے کی آرزو اورہمت رکھتے ہیں ۔ تقدیر اور تدبیر کا ہماری زندگی میں کتنا عمل دخل ہے اس الجھن کا جواب سائنسدانوں نے ڈھونڈ نکالا ہے جن کا کہنا ہے کہ ،اگرہم چاہیں تو تدبیرکی مدد سے آزادانہ طورپراپنی زندگی تبدیل کرسکتے ہیں ۔
سائنسی ماہرین نے ایک تازہ سروے کے نتیجےسے اخذ کیا ہے کہ قسمت کی مہربانی پربھروسہ رکھنے والے لوگوں کےمقابلے میں اپنے ہاتھوں سے قسمت بدلنے پریقین رکھنے والے افراد مالی طور پر زیادہ مستحکم ہوتےہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ،ایسےلوگ جو اپنی جیت کے لیے قسمت سے مدد کے منتظررہتے ہیں ان کی زندگی میں بہتری کے بجائے ابتری پیدا ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں نسبتا ان لوگوں سے جواپنی قسمت کو خوش قسمتی میں بدلنے کا مضبوط ارادہ رکھتے ہیں ۔
ایک تعلیمی سروے رپورٹ میں ہزاروں آسٹریلین گھرانوں کی دولت اورمالی استحکام کے حوالے سے جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ چار برسوں پر مشتمل مطالعاتی جائزے کے دوران جو گھرانے اپنی قسمت بنانے میں جتے ہوئے تھے ان کی آمدنی میں 82 ہزار پونڈ کا اضافہ ہوا اورانھوں نے مختصرعرصے میں دولت حاصل کرلی۔
میلبورن یونیورسٹی سے منسلک تعلیمی ماہرین نے بتایا کہ خود انحصاری پر بھروسہ رکھنے والوں کی پینشن اور بچت دونوں زیادہ تھی جبکہ ان کی نسبت قسمت پر تکیہ کرنے والوں نے گاڑیوں اورالیکٹرانک مصنوعات پر پیسہ خرچ کیا اوراصل قیمت کی وصولی سے بھی محروم ہوگئے ۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایسے گھرانے جنھوں نےاس مدت کےدوران 'جو ہو گا دیکھا جائے گا' پر یقین رکھا تھا ان کی مالی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوا تھا۔
تعلیمی ماہرین نے کہا کہ ،خوش بختی کی آس لگانے والے افراد اورمحنت سے تقدیر بدلنے والوں کی مالی حیثیت کا واضح فرق خاص طور پرغریب گھرانوں میں نمایاں نظرآیا جہاں زندگی کی باگ ڈورکو اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنے والوں نے اپنے ہم پلہ قسمت پر بھروسہ رکھنے والے گھرانوں کے مقابلے میں تقریبا ساٹھ فیصد زیادہ دولت حاصل کر لی تھی ۔
روزنامہ ڈیلی میل کے مضمون کے مطابق ،جائزہ رپورٹ 'لوکس کنٹرول اور سیونگ ' کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں سائنسدانوں نے بچت کی عادت کو لوگوں کے نفسیاتی رویے کےساتھ منسلک کیا ہے ۔
ماہرین نے جائزہ رپورٹ میں عظیم ماہرنفسیات جولین روٹرکا شخصی نفسیات کا نظریہ' لوکس آف کنٹرول' استعمال کیا ہے ۔ اس نظریہ کے تحت لوگوں کو دوگروہوں یعنی 'تقدیر' پر یقین رکھنے والے اور' تدبیر' پر بھروسہ کرنے والوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
انٹرنل لوکس (تدبیر) کی درجہ بندی میں شامل افراد وہ ہوتے ہیں جنھیں اپنی زندگی کو کنٹرول کرنے پر یقین ہوتا ہے وہ اس بات کے سخت حامی ہوتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پروہ اپنی تقدیرکوخوش بختی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
جبکہ ایکسٹرنل لوکس ( تقدیر) کے گروہ بندی میں شامل افراد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ،ان کے فیصلوں اور زندگی کو ماحولیاتی عوامل کنٹرول کرتے ہیں جس پروہ اثر انداز نہیں ہو سکتے ہیں انھیں اس بات پربھروسہ ہوتا ہے کہ تقدیر خوش قسمتی یا پھردوسرے لوگ ان کی زندگی کی تشکیل دینے میں طاقت رکھتے ہیں ۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ انھیں سروے کے نتائج سے پتا چلا کہ جن گھرانوں کے سربراہ کی سوچ داخلی لوکس (تدبیر) کو ظاہر کرتی تھی ایسے گھروں کی مستقل آمدنی میں بچت کی اوسط اور شرح دونوں بلند پائی گئی اس کے برعکس خارجی لوکس کے حامل افراد بچت کےاعتبار سے بہت پیچھے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چار سال کی مدت کے دوران اپنی قسمت خود تشکیل دینے کے مضبوط احساس رکھنے والے گھرانوں نے 82 ہزار بچا ئے اور اپنی آمدنی کا 7.7 فیصد حصہ بچت کی مد میں محفوظ کیا جبکہ ، 10 فیصد غریب گھرانے جہاں تدبیر کی سوچ نمایاں تھی وہ خوش قسمتی کےانتظارمیں زندگی گزارنے والوں کی نسبت 40 سے 60 فیصد زیادہ امیر تھے۔
سائنسی ماہرین نے ایک تازہ سروے کے نتیجےسے اخذ کیا ہے کہ قسمت کی مہربانی پربھروسہ رکھنے والے لوگوں کےمقابلے میں اپنے ہاتھوں سے قسمت بدلنے پریقین رکھنے والے افراد مالی طور پر زیادہ مستحکم ہوتےہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ،ایسےلوگ جو اپنی جیت کے لیے قسمت سے مدد کے منتظررہتے ہیں ان کی زندگی میں بہتری کے بجائے ابتری پیدا ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں نسبتا ان لوگوں سے جواپنی قسمت کو خوش قسمتی میں بدلنے کا مضبوط ارادہ رکھتے ہیں ۔
ایک تعلیمی سروے رپورٹ میں ہزاروں آسٹریلین گھرانوں کی دولت اورمالی استحکام کے حوالے سے جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ چار برسوں پر مشتمل مطالعاتی جائزے کے دوران جو گھرانے اپنی قسمت بنانے میں جتے ہوئے تھے ان کی آمدنی میں 82 ہزار پونڈ کا اضافہ ہوا اورانھوں نے مختصرعرصے میں دولت حاصل کرلی۔
میلبورن یونیورسٹی سے منسلک تعلیمی ماہرین نے بتایا کہ خود انحصاری پر بھروسہ رکھنے والوں کی پینشن اور بچت دونوں زیادہ تھی جبکہ ان کی نسبت قسمت پر تکیہ کرنے والوں نے گاڑیوں اورالیکٹرانک مصنوعات پر پیسہ خرچ کیا اوراصل قیمت کی وصولی سے بھی محروم ہوگئے ۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایسے گھرانے جنھوں نےاس مدت کےدوران 'جو ہو گا دیکھا جائے گا' پر یقین رکھا تھا ان کی مالی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوا تھا۔
تعلیمی ماہرین نے کہا کہ ،خوش بختی کی آس لگانے والے افراد اورمحنت سے تقدیر بدلنے والوں کی مالی حیثیت کا واضح فرق خاص طور پرغریب گھرانوں میں نمایاں نظرآیا جہاں زندگی کی باگ ڈورکو اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنے والوں نے اپنے ہم پلہ قسمت پر بھروسہ رکھنے والے گھرانوں کے مقابلے میں تقریبا ساٹھ فیصد زیادہ دولت حاصل کر لی تھی ۔
روزنامہ ڈیلی میل کے مضمون کے مطابق ،جائزہ رپورٹ 'لوکس کنٹرول اور سیونگ ' کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں سائنسدانوں نے بچت کی عادت کو لوگوں کے نفسیاتی رویے کےساتھ منسلک کیا ہے ۔
ماہرین نے جائزہ رپورٹ میں عظیم ماہرنفسیات جولین روٹرکا شخصی نفسیات کا نظریہ' لوکس آف کنٹرول' استعمال کیا ہے ۔ اس نظریہ کے تحت لوگوں کو دوگروہوں یعنی 'تقدیر' پر یقین رکھنے والے اور' تدبیر' پر بھروسہ کرنے والوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
انٹرنل لوکس (تدبیر) کی درجہ بندی میں شامل افراد وہ ہوتے ہیں جنھیں اپنی زندگی کو کنٹرول کرنے پر یقین ہوتا ہے وہ اس بات کے سخت حامی ہوتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پروہ اپنی تقدیرکوخوش بختی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
جبکہ ایکسٹرنل لوکس ( تقدیر) کے گروہ بندی میں شامل افراد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ،ان کے فیصلوں اور زندگی کو ماحولیاتی عوامل کنٹرول کرتے ہیں جس پروہ اثر انداز نہیں ہو سکتے ہیں انھیں اس بات پربھروسہ ہوتا ہے کہ تقدیر خوش قسمتی یا پھردوسرے لوگ ان کی زندگی کی تشکیل دینے میں طاقت رکھتے ہیں ۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ انھیں سروے کے نتائج سے پتا چلا کہ جن گھرانوں کے سربراہ کی سوچ داخلی لوکس (تدبیر) کو ظاہر کرتی تھی ایسے گھروں کی مستقل آمدنی میں بچت کی اوسط اور شرح دونوں بلند پائی گئی اس کے برعکس خارجی لوکس کے حامل افراد بچت کےاعتبار سے بہت پیچھے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چار سال کی مدت کے دوران اپنی قسمت خود تشکیل دینے کے مضبوط احساس رکھنے والے گھرانوں نے 82 ہزار بچا ئے اور اپنی آمدنی کا 7.7 فیصد حصہ بچت کی مد میں محفوظ کیا جبکہ ، 10 فیصد غریب گھرانے جہاں تدبیر کی سوچ نمایاں تھی وہ خوش قسمتی کےانتظارمیں زندگی گزارنے والوں کی نسبت 40 سے 60 فیصد زیادہ امیر تھے۔