سن 1892سے 1954 تک یو ایس فیڈرل امیگریشن اسٹیشن نیویارک کے ذریعے امریکہ میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ تارکین وطن امریکہ آئے۔ ان نئے آنے والے لوگوں کا معاشرے میں امریکی خواب کے حصول کے لیے انضمام امریکہ کی قومی کہانی کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔
زیادہ تر یورپ سے آئے ان ابتدائی تارکین وطن کو مثالی قرار دیتے ہیں اور انہیں آج کے ایشیا اور جنوبی امریکہ سے آئے تارکینِ وطن کے مقابلے میں کسی نہ کسی طرح بہتر سمجھتے ہیں۔
آج کل آنے والے تارکین وطن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کے رنگ میں رچ بسنے میں بہت دیر لگاتے ہیں۔ ان پر یہ الزامات لگتے ہیں کہ وہ یہاں جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ امریکہ پر معاشی بوجھ ہیں اور وہ امریکہ میں پیدا ہونے والوں سے ان کی ملازمتیں چراتے ہیں۔
وائس آٖف امریکہ کی رپورٹر ڈورا میکور کے تفصیلی رپورٹ کے مطابق معاشی تاریخ دان لیا بوسٹان اور رون ابرامیٹز کی نے آج کے جدید دور میں امریکہ آنے والے تارکینِ وطن اور ایک صدی قبل یہاں آباد ہونے والے افراد کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔
کامیاب بچے
ابرامیٹزکی ، جو اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ہیں کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں امریکہ آنے والے تارکینِ وطن کے بچے ایک صدی قبل امریکہ میں آباد ہونے والی نسل کے یہاں پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہیں اور کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔ اُن کے بقول باعث تعجب بات یہ ہے کہ 100 برس سے یہی رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ان کی ساتھی تاریخ دان بوسٹان، جو پرنسٹن یونیورسٹی میں اقتصادیات کی پروفیسر ہیں، کہتی ہیں کہ امریکہ آنے والے تارکینِ وطن کے بہت سے بچوں کا امریکہ میں پیدا ہونے والے تارکینِ وطن بچوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھانے کا تعلق ان کے رہائش کے مقامات سے ہے۔
اپنے نکتے کوبیان کرتے ہوئے بوسٹان کہتی ہیں کہ تارکینِ وطن کے بچے متحرک شہروں میں رہتے ہیں جہاں ملازمتوں کے بہت اچھے مواقع ہیں اور یہ حالات ان کے بچوں کو کامیابی کے لیے تیار کرنے میں مدد کر کرتے ہیں۔اس طرح تارکین وطن اچھی جگہوں پر جانے کے لیے تیار ہیں جب کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے بہت سے خاندان اسی جگہ پر رہتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔
ایک اور عنصر یہ ہے کہ دوسرے ملکوں سے آئے والدین کے پاس اپنے آبائی ممالک کی کالج ڈگریاں اور پیشہ ورانہ مہارتیں ہو تی ہیں جن کے لیے وہ امریکہ میں درخواست نہیں دے سکتے، لیکن وہ تعلیم اور پیشہ ورانہ کامیابی کے لیے اپنے بچوں میں ایک تحریک پیدا کرتے ہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ڈومینیکن ری پبلک، میکسیکو یا گوئٹے مالا سے تعلق رکھنے والے آج کے تارکین وطن کے بچے جو نسبتاً غریب خاندانوں میں پلے بڑھے ہیں، ماضی کے ناروے، جرمن اور اٹلی سے آئے تارکین وطن کے بچوں کے برابر ہی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
موجودہ روایات پر اختلاف کرنا
بوسٹان کہتی ہیں کہ اعداد و شمار اس تصور کو بھی رد کرتے ہیں کہ آج کے تارکینِ وطن امریکہ پر مالی بوجھ ہیں۔
وہ کہتی ہیں "اگر تارکینِ وطن والدین کو کم تنخواہ ملتی ہے تب بھی ان کے بچے زیادہ تنخواہ دار، زیادہ پیداواری ملازمتوں میں تیزی سے آگے بڑھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔" لہٰذا ایک نسل کے اس وقت کے پیمانے پر ہم دیکھتے ہیں کہ تارکینِ وطن اس قابل ہیں کہ وہ نظام سے کم لیتے ہیں اور اسے زیادہ دیتے ہیں۔
ابرامیٹزکی اور بوسٹان نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آج کے تارکینِ وطن اتنی ہی تیزی سے امریکہ میں ضم ہو جاتے ہیں جس طرح ایک صدی پہلے تارکینِ وطن ہو جایا کرتے تھے۔
تحقیق کرتے وقت دونوں موؐرخین نے جن نکات پر اپنے نتائج کو پرکھا ان میں انگریزی سیکھنا، اپنی نسل کے محلے سے باہر رہنا، مختلف نسلوں میں شادیاں کرنا اور بچوں کو امریکی نام دینا شامل ہیں۔
انہوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ آج کے تارکینِ وطن ماضی کے تارکینِ وطن کی نسبت اپنی آبائی ثقافت کو برقرار رکھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔
تارکینِ وطن کے مخالفین اکثر امیگریشن کو محدود کرنے اور امریکہ-میکسیکو کی سرحد کے ساتھ سرحد پر دیوار بنانے کے حامی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تارکینِ وطن کی وجہ سے امریکہ میں جرائم بڑھتے ہیں۔
لیکن اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے لوگوں کے مقابلے میں آج کے تارکینِ وطن کا کسی جرم میں گرفتار اور قید ہونے کا امکان کم ہے۔
ملازمتوں کی چوری کا الزام
کیا تارکین وطن مقامی لوگوں سے ملازمتیں چوری کرتے ہیں اور امریکہ میں پیدا ہونے والے کارکنوں کی اجرت میں کمی کا باعث بنتے ہیں؟
بوسٹان کے مطابق، اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ تارکین وطن لیبر مارکیٹ میں ان جگہوں پر خلا کو پر کرتے ہیں، جہاں ورکرز کی بہت زیادہ مانگ ہے لیکن ان کو پر کرنے کے لیے کافی کارکن میسر نہیں ہیں۔
بوسٹان کا کہنا ہے کہ ان دنوں، تارکین وطن بہت سی مہارتیں لاتے ہیں جو آج امریکہ میں زیادہ عام نہیں ہیں۔بہت سے تارکینِ وطن انتہائی ہنر مند پی ایچ ڈی ہیں۔ سائنس دان، ٹیک ورکرز، اور وہ مہارتیں اکثر ملازمتیں چھیننے سے زیادہ ملازمتیں پیدا کرتی ہیں۔
دوسری طرف غیر تعلیم یافتہ، غریب تارکینِ وطن تعمیرات، زراعت اور خدمات کے شعبوں جیسے کہ بزرگوں کی مدد کرنا یا بچوں کی دیکھ بھال فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں۔
ابرامیٹزکی کا کہنا ہے کہ جو لوگ آمدنی کی تقسیم کے نچلے درجے پر ہیں وہ ایسی ملازمتیں کر رہے ہیں جن کے انجام دینے کے لیے امریکہ میں پیدا ہونے والے کارکنوں کو تلاش کرنا مشکل ہے۔
تحقیقی ادارے پیو ریسرچ کے سن 2020 کے ایک جائزے سے پتا چلتا ہے کہ سیاسی افق کے دونوں سروں پر خیالات رکھنے والے امریکی عام طورپر اس بات پر متفق ہیں کہ غیر قانونی طور پر آئے اور قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن ایسی ملازمتوں میں کام کرتے ہیں جن پر امریکی شہری کام نہیں کرنا چاہتے ۔
لیکن ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جارج بورجاس، جو امیگریشن کے مسائل میں ماہر معاشیات ہیں کہتے ہیں کہ تارکینِ وطن کی آمد سے غریب محنت کشوں کے امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بورجاس کے مطابق کم اجرت والی ملازمتوں میں جن لوگوں کو محدود تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں تارکینِ وطن سے نمایاں مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کم ہنر مند کارکنوں کی تعداد میں اضافے سے مجموعی آمدنی میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خود تارکینِ وطن اور کاروباری مالکان جو تارکینِ وطن کی مزدوری کا استعمال کرتے ہیں امیگرنٹس کی آمد سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اپنی کتاب میں، ابرامیٹزکی اور بوسٹان اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ 1920 کی دہائی میں تارکینِ وطن کے سخت کوٹے کے نتیجے میں امریکی مینوفیکچرنگ ورکرز کے لیے زیادہ اجرت نہیں ملی، حالانکہ امیگریشن میں "لاکھوں" کی کمی واقع ہوئی تھی۔
کتاب کے مصنفین کو امید ہے کہ قانون ساز مستقبل کے امیگریشن قوانین اور پالیسیاں بنانے سے پہلے ڈیٹا کا جائزہ لیں گے۔
ابرامیٹزکی کا کہنا ہے کہ یہ امر کہ تقریباً تمام ملکوں سے آئے تارکینِ وطن آگے بڑھتے ہیں ظاہر کرتا ہے کہ تارکین وطن کے تجربات میں فرق کے مقابلے میں مماثلتیں زیادہ ہیں۔
"ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے تارکینِ وطن ماضی کے تارکینِ وطن کی طرح ہی کار کردگی دکھا رہے ہیں۔ پالیسی سازی کرتے وقت یہ سوچ رکھنا کہ تارکینِ وطن امریکہ میں ضم ہونے کے قابل نہیں ہیں غلط اطلاعات پر مبنی ہے۔"