امریکہ کی ریاست نیو یارک کے شہر بفلو میں فائرنگ کے واقعے میں 10 افراد کی ہلاکت کے بعد تفتیش کار حملہ آور کی جانب سے لکھے گئے 180 صفحات پر مشتمل منشور کا جائزہ لے رہے ہیں۔ 'دی گریٹ ریپلیسمنٹ' کے عنوان سے لکھا گیا یہ منشور سفید فام قوم پرستوں میں مقبول سازشی تھیوری کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔
تین برس قبل 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں فائرنگ کر کے 50 افراد کو ہلاک کرنے والے سفید فام آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرینٹ نے بھی حملے سے قبل 87 صفحات پر مشتمل بیان 'دی گریٹ ریپلیسمنٹ' کے نام سے ہی جاری کیا تھا۔
آخر 'دی گریٹ ریپلیسمنٹ' ہے کیا اور سفید فام نسل پرستوں میں یہ مقبول کیوں ہے۔ آیئے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
ریپلیسمنٹ کا مطلب ہے کیا؟
اس تھیوری کو ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک میں بائیں بازو کی اشرافیہ ملک کی سفید فام آبادی کو غیر سفید فام افراد یا تارکینِ وطن سے تبدیل کر رہی ہے جو سفید فام افراد کی 'نسل کشی' کے مترادف ہے۔
اس تھیوری پر یقین رکھنے والوں کا مؤقف ہے کہ سیاسی اور کاروباری اشرافیہ کو ان مقروض غیر سفید فام افراد کے ذریعے اقتدار میں رکھا جائے گا۔
بفلو کے گراسری اسٹور میں 18 سالہ سفید فام حملہ آور مپیٹن گینڈرون نے بھی مبینہ طور پر اپنی آن لائن پوسٹ میں کہا تھا کہ امریکہ میں سفید فام افراد کو اقلیتوں سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔
'دی گریٹ ریپلیسمنٹ' کی بنیاد کیسے رکھی گئی؟
خیال کیا جاتا ہے کہ 'دی گریٹ ریپلیسمنٹ' نظریے کی بنیاد 20ویں صدی کے اوائل میں فرانسیسی قوم پرستوں نے رکھی۔
غیر منافع بخش امریکی تنظیم اینٹی ڈیفمیشن لیگ (اے ڈی ایل) کے مطابق حالیہ برسوں میں فرانسیسی مصنف ریناؤڈ کیموس کے تصورات نے اس نظریے کو مقبو ل کیا جن کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ سے آنے والے غیر سفید فام افراد یورپ کی سفید فام آبادی کے خاتمے کا سبب بنیں گے۔
اُن کے بقول امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک کے سفید فام افراد یہ سمجھتے ہیں کہ یہودی اشرافیہ غیر سفید فام افراد کی امیگریشن کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اسی لیے اس سازشی تھیوری کو یہودیوں کے مخالف بھی سمجھا جاتا ہے۔
اے ڈی ایل کے مطابق نازی جرمنی کے دور میں 'ریپلیسمنٹ تھیوری' اور 'سفید فام نسل' کشی کو یہودیوں سے جوڑا جاتا تھا اور نازی حکومت یہ باور کرانے کی کوشش کرتی تھی کہ سفید فام تہذیب کو سب سے بڑا خطرہ یہودیوں سے ہے۔
'ریپلیسمنٹ تھیوری' کا ماس شوٹنگ سے کیا تعلق؟
بفلو میں ہونے والے فائرنگ کو واقعے کو حکام نسلی تعصب کی بنیاد پر 'پرتشدد انتہا پسندی' قرار دے رہے ہیں۔یہ واقعہ نسل پرستی کی بنیاد پر فائرنگ کے ان واقعات میں سے ایک ہے جو حالیہ برسوں میں امریکہ میں رونما ہوتے رہے ہیں۔
سال 2019 میں امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ایل پاسو کے وال مارٹ میں فائرنگ کے واقعے میں 22 ہلاکتوں اور امریکہ میں یہودیوں کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کو بھی حکام اسی منشور کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔
سن 2018 میں امریکہ کی ریاست پینسلوینیا کے شہر پٹس برگ کے 'ٹری آف لائف' سناگاگ (یہودیوں کی عبادت گاہ) میں ایک حملہ آور نے فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس دوران حملہ آور نعرے بلند کرتا رہا ہے کہ 'سب یہودیوں کو مر جانا چاہیے۔'
تفتیش کار بفلو شوٹنگ کا موازنہ کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے سے بھی کر رہے ہیں کیوں کہ بفلو میں بھی حملہ آور نے ساری کارروائی کو لائیو اسٹریم کیا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق 2017 میں امریکی ریاست ورجینیا میں سفید فام قوم پرستوں نے ایک ریلی بھی نکالی تھی جس میں نعرے لگائے گئے تھے کہ یہودی ہماری جگہ نہیں لے سکتے۔
بفلو میں کیا ہوا تھا؟
اتوار کو امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر واقع شہر بفلو کی ایک سپر مارکیٹ میں فائرنگ سے دس افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے تھے۔ حکام نے اس واقعے کو ’نسلی منافرت‘ پر مبنی واقعہ قرار دیا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق ایک 18 سالہ سفید فام نوجوان نے، جو فوجیوں کے انداز کا باڈی آرمر اور لباس پہنے ہوئے تھا، ایک سپر مارکیٹ کے باہر گاڑی سے اتر کر خریداری کرتے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی تھی ۔مبینہ نوجوان حملہ آور اپنے ہیلمٹ میں نصب کیمرے سے حملے کو سوشل میڈیا پر براہ راست نشر بھی کر رہا تھا۔
(اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے)