لبنان کی ملیشیا تنظیم حزب اللہ نے جب گزشتہ ہفتے یہ اعلان کیا کہ اس کے رہنما حسن نصراللہ اسرائیل اور حماس کی جنگ شروع ہونے کے بعد اپنی پہلی عوامی تقریر کریں گے تو خطے کے بیشتر حصےمیں لوگوں نے جیسے سانس ہی روک لی۔
کیا ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ، جو عرب دنیا کی سب سے طاقتور نیم فوجی فورس ہے، اسرائیل کے ساتھ اپنی محدود کارروائیوں کا تبادلہ جاری رکھے گی یا خود کو مکمل طور پر جنگ میں جھونک دے گی؟
تقریر کے دوران لبنان میں سڑکیں خالی ہوگئیں، لوگ اپنی اسکرینوں کےسامنے بیٹھ گئے تاکہ اسرائیل اور پورے مشرق وسطیٰ کے فیصلہ سازوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی حزب اللہ کے رہنما کی تقریرکو سمجھ سکیں۔
حماس کے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں اچانک حملے کے بعد غزہ کی پٹی میں جنگ کو ہوا دینے کے بعد سے حزب اللہ کا سرحد کے ساتھ اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ دونوں فریقوں کو جانی نقصان ہوا ہے۔ خدشہ ہے کہ تنازعہ بڑھے گا اور علاقائی لڑائی میں بدل جائے گا۔
نصراللہ نے جمعے کو اپنی تقریر میں ان خدشات پر بات کی ، "کچھ (لوگ) کہتے ہیں کہ میں اعلان کرنے جا رہا ہوں کہ ہم جنگ میں داخل ہو گئے ہیں،" انہوں نے کہا۔ "ہم پہلے ہی 8 اکتوبر کو جنگ میں داخل ہو چکے ہیں۔"
تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ حزب اللہ گروپ مزید مکمل طور پر لڑائی میں شامل ہو جائے گا۔
حزب اللہ اور اس کے رہنما اسرائیل اور حماس جنگ کی رفتار میں کلیدی کھلاڑی کیسے ہیں ۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں
حزب اللہ کیا ہے؟
حزب اللہ ایک شیعہ مسلم تنظیم ہے جو خطے میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں اور حکومتوں کا ایک مجموعہ ہے۔ اسے مزاحمت کا محور کہا جاتا ہے۔
لبنان کی خانہ جنگی کے دوران 1982 میں قائم ہونے والی حزب اللہ کا ابتدائی مقصد جنوبی لبنان پر اسرائیل کے قبضے کو ختم کرنا تھا،جو اس نے بالآخرسن 2000 میں حاصل کر لیا۔ یہ پہلا گروپ تھا جس پر ایران نے اپنے سیاسی اسلام پسندی کے برانڈ کو برآمد کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی تھی۔
ابتدا میں اس گروپ نے امریکی اہداف پر حملے بھی کیے، جس کی وجہ سے واشنگٹن نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔
لندن میں قائم ایس او اے ایس "مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ" کی ڈائریکٹر لینا خطیب نے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کو بتایا کہ "ایران کی حمایت نے حزب اللہ کو لبنان کاسب سے طاقتور سیاسی گروپ بنانے کے ساتھ ساتھ پورے مشرق وسطیٰ میں ایران کی حمایت یافتہ سب سے زیادہ مسلح فوجی تنظیم کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں مدد کی ہے۔"
سال 2006 میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل کے گشت کرنے والے دستے پر گھات لگا کر دو، اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنانے کے بعد اس ملیشیا گروپ اور اسرائیل کے درمیان ایک ماہ طویل جنگ ہوئی جو برابری پر ختم ہوئی - لیکن جنگ ختم ہونے سے پہلے اسرائیلی بمباری نے جنوبی لبنان میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی تھی۔
اس وقت اسرائیل کا مقصد حماس کے ساتھ جاری جنگ کی طرح حزب اللہ کو ختم کرنا تھا۔ اس مقصد کے برعکس یہ گروپ مزید مضبوط ہوا ۔ حزب اللہ نہ صرف ایک مسلح طاقت کے طور پر ابھرا بلکہ لبنان کی ایک اہم سیاسی جماعت بھی بن گیا۔
تاہم، لبنان کے اندرونی مخالفین نے حزب اللہ کو اپنے ہتھیاروں کو برقرار رکھنے اور حکومت پر غلبہ حاصل کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس گروپ کی ساکھ کو اس وقت بھی نقصان پہنچا جب اس نے مئی 2008 میں لبنانی حکومت کی جانب سے اس کے نجی ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کرنے کے بعد بیروت شہر کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا۔
حسن نصراللہ کون ہیں؟
حسن نصراللہ سن 1960 میں بیروت کے مضافاتی علاقے بورج حمود میں ایک غریب شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے اور بعد میں جنوبی لبنان میں نقل مکانی کرنےکے بعد انہوں نےتھیولوجی یعنی دینیات کی تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے حزب اللہ کے بانیوں میں سے ایک بننے سے پہلے، سیاسی اور نیم فوجی شیعہ تنظیم امل تحریک میں شمولیت اختیار کی۔
سال 1992 میں جب ان کے پیشرو اسرائیلی حملے میں مارے گئے تونصراللہ حزب اللہ کے رہنما بن گئے۔ وہ اب لبنان کی طاقتور ترین سیاسی شخصیات میں سے ایک ہیں۔
ان کی صدارت میں اسرائیل کے جنوبی لبنان سے انخلاء اور 2006 کی جنگ کی قیادت کرنے پر بہت سے لوگ انہیں آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔
ان کی تصویریں لبنان، شام اور عرب دنیا کے دیگر ممالک میں اشتہاروں کے بورڈزپر لگائی جاتی ہیں اور سووینئر یعنی تحائف کی دکانوں میں الیکٹرانک ڈیوائسز پر دکھائی دیتی ہے۔ لیکن انہیں لبنانیوں کی طرف سے مخالفت کا بھی سامنا ہے جو ان پر لبنان کی تقدیر ایران سے جوڑنے کا الزام لگاتے ہیں۔
نصراللہ کو سیاست میں سمجھ بوجھ سے کام لینے والا بھی سمجھا جاتا ہے جو سمجھوتے کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔
وہ اسرائیل کی جانب سے قاتلانہ حملے کے خوف سے برسوں سے روپوش رہے ہیں اور نامعلوم مقامات سے تقریریں کرتےہیں۔
حزب اللہ کا دوسرے ایرانی حمایت یافتہ گروپوں سے موازنہ
حزب اللہ عرب دنیا کی سب سے اہم پیرا ملٹری فورس ہے۔ ایک مضبوط اندرونی ساخت کے ساتھ ساتھ اس کے پاس بڑے ہتھیار بھی ہیں۔ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ حزب اللہ کے پاس ہدف کو نشانہ بنانے والے 150,000 گائیڈڈ میزائلوں کا ذخیرہ ہے۔
حالیہ برسوں میں حزب اللہ نے شام میں اپنے ساتھی ایرانی اتحادی صدر بشار الاسد کی مسلح اپوزیشن گروپوں کے خلاف مدد کے لیے جنگجو بھیجے تھے۔
انہوں نے عراق، یمن اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے فروغ میں بھی ان کی حمایت کی۔
لینا خطیب کے مطابق حزب اللہ ان نئے ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کے "بڑے بھائی" کی مانند ہیں جن کے پاس حزب اللہ کی طرح کا بنیادی ڈھانچہ یا نظم و ضبط نہیں ہے۔"
حزب اللہ اور حماس کے درمیان کیا تعلق ہے؟
حزب اللہ نظریاتی طور پر ایران کا پابند ہےجبکہ حماس کے ساتھ اس کے تعلقات عملی نوعیت کے ہیں۔
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی بنیاد 1987 میں سنی مسلم اخوان المسلمین کی تحریک کی ایک شاخ کے طور پر رکھی گئی تھی۔ حماس کو ایران اور شام سے سیاسی اور مالی حمایت 2006 سے پہلے حاصل نہیں ہوئی تھی۔
شام کی خانہ جنگی پر حماس اور ایرانی حمایت یافتہ ایکسز یعنی محور حزب اللہ کے درمیان اس وقت اختلاف پھوٹ پڑ ے جب حماس نے کچھ عرصے تک شامی سنی حزب اختلاف کے جنگجوؤں کی حمایت کی۔
حزب اللہ کے قریبی لبنانی تجزیہ کار قاسم قصیر کہتے ہیں کہ شام کے حوالے سے اختلافات کے باوجود گزشتہ پانچ برسوں کے دوران حزب اللہ اور حماس کے تعلقات میں تیزی سے بہتری آئی ہے۔
حماس کے بہت سے اعلیٰ عہدیدار قطر اور ترکی میں مقیم تھے جو شامی اپوزیشن کی حمایت کرتے تھے۔ اس صورت حال میں گروپ کی ایرانی صف میں واپسی نے انہیں ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا۔
حماس کے سیکنڈ ان کمانڈ صالح العروری سمیت کچھ اہلکار اس کے بعد سے لبنان چلے گئے ہیں، جہاں انہیں حزب اللہ کا تحفظ حاصل ہے اور لبنان کے متعدد فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں ان کی موجودگی ہے۔
حزب اللہ حماس کے تحفظ کے لیے کہاں تک جانا چاہتی ہے؟
حزب اللہ کے لیے اسرائیل اور حماس کی جنگ میں مکمل طور پر شامل ہونا اقتصادی مشکلات اور اندرونی سیاسی تناؤ سے دو چارلبنان کو ایک ایسے تنازعہ میں گھسیٹنے کا خطرہ ہو گا جو وہ برداشت نہیں کر سکتا۔
اس سے لبنان کے اندر حزب اللہ کی مخالفت کو ہوا ملے گی۔
لیکن ایسے وقت میں جبکہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھال رہی ہو حزب اللہ کا ایک طرف رہنا اس گروپ کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ حماس کی شکست ایران کے لیے ایک دھچکا ہو گی۔
اسرائیل کی شمالی سرحد پر حزب اللہ کا مسلسل دباؤ حماس کی حمایت کو ظاہر کرتا ہے اور وسیع تر مداخلت کا خطرہ کھلا رکھتا ہے۔
قاصم قصیر کے مطابق نصراللہ کی تقریر کا پیغام یہ ہے، "اگر آپ نہیں چاہتے کہ علاقائی جنگ پھیلے تو پھر (غزہ میں) جنگ کو روکنا ہوگا۔"
لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ حزب اللہ کب تک اس نازک توازن کو برقرار رکھ سکتا ہے کیونکہ اسرائیل بظاہر حماس کو کچلنے کے لیے پرعزم ہے اور غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 10,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔
"قاصم قصیر کہتے ہیں، اگر غزہ کا شیرازہ مکمل طور پر بکھر جاتا ہے اور حالات اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں جہاں حزب اللہ کی جنگ میں مکمل طور پر شمولیت لازم ہو جائے تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔
اس مضمون میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں۔
فورم