کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت جب بھی مدِمقابل آتے ہیں تو پاکستانی اور بھارتی شائقین کے ذہنوں میں صرف ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ کیا ان کی ٹیم اس بار مخالف ٹیم کو ہرا پائے گی؟
پاکستان ٹیم ایونٹ ہارے یا جیتے اس کے مداحوں کے لیے بھارت کے خلاف کامیابی کسی بھی دوسری فتح سے بڑی ہے، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ورلڈ کپ میں، چاہے وہ ون ڈے کا ہو یا ٹی ٹوئنٹی کا، پاکستان کرکٹ ٹیم کا ٹریک ریکارڈ روایتی حریف کے خلاف مایوس کن رہا ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں بھارت کے خلاف پاکستان کا ریکارڈ متاثر کن، ورلڈ کپ میں مایوس کن!
پاکستان اور بھارت کے درمیان آج تک 132 ون ڈے اور آٹھ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیلے گئے، ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں جہاں پاکستان کا پلڑا بھاری ہے تو وہیں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں بھارت کا ریکارڈ بر تر ہے۔ 132 ون ڈے مقابلوں میں پاکستان نے 73 جب کہ بھارت نے 55 جیتے، چار میچز بے نتیجہ رہے۔
ادھر انٹرنیشنل کرکٹ کے سب سے مختصر فارمیٹ میں پاکستان کو بھارت کے خلاف آٹھ میچز میں سے صرف ایک ٹی ٹوئنٹی میچ میں کامیابی نصیب ہوئی، ایک میچ ٹائی ہوا جس میں بھی بول آؤٹ کے ذریعے بھارت کو فاتح قرار دیا گیا۔
اگر ورلڈ کپ کرکٹ کی بات کی جائے تو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی، دونوں کے میگا ایونٹ میں پاکستان نے بھارت کو کبھی شکست نہیں دی۔ پہلی مرتبہ 1992 کے ورلڈ کپ میں سڈنی کے مقام پر دونوں ٹیمیں مدِمقابل آئیں، پاکستان نے یہ ایونٹ تو جیت لیا تھا لیکن بھارت سے شکست آج بھی شائقین نہیں بھولے۔
اس کے بعد 1996 میں بنگلور کے مقام پر کوارٹر فائنل اور 1999 میں مانچسٹر کے مقام پر سپر ایٹ مقابلے میں بھارت نے پاکستان کو زیر کیا۔ 2003 میں سینچورین کے مقام پر سعید انور کی آخری ون ڈے سینچری کے باوجود بھارتی ٹیم نے فتح سمیٹی جب کہ 2011 میں موہالی میں دونوں ٹیموں کا سیمی فائنل بھی بھارت کے نام رہا۔
سن 2015 میں ایڈیلیڈ اور 2019 میں مانچسٹر میں بھی پاکستان ٹیم بھارت کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوسکی اور یوں ون ڈے کرکٹ کے ورلڈ کپ میں کھیلے گئے سات کے سات میچ بھارت نے جیتے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی معاملہ کچھ زیادہ مختلف نہیں، دونوں ٹیمیں 2007 کے ورلڈ کپ کے فائنل کو ملا کر پانچ مرتبہ آمنے سامنے آئیں۔ 2007 میں دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا پہلا میچ ٹائی ہوا جس میں بول آؤٹ میں پاکستان کو شکست ہوئی۔
اسی ایونٹ کے فائنل میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد بھارت پہلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب رہا۔ میچ کے آخری اوور میں جب پاکستان کو چار گیندوں پر چھ رنز درکار تھے، اس موقع پر مصباح الحق نے اسکوپ شاٹ لگائی لیکن گیند سیدھی شری شانت کے ہاتھوں میں گئی۔
اس کے بعد دونوں ٹیموں نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں تین میچز کھیلے، لیکن 2012 میں کولمبو کے مقام پر گرین شرٹس کو آٹھ وکٹ، 2014 میں ڈھاکا میں سات وکٹ اور 2016 میں کولکتہ میں چھ وکٹوں سے شکست ہوئی۔
پاکستان ٹیم آئی سی سی ایونٹ میں بھارت سے کیوں نہیں جیت پاتی؟
سن 1992 کے ورلڈ کپ کی ٹیم ہو یا پھر 1999 کی، پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا لیگ میچ ہو یا فائنل، پاکستان اور بھارت کے میچ میں ہمیشہ دونوں جانب بہترین کھلاڑی ہی کھیلے ہیں۔
اگر وہاں کپیل دیو اور سچن ٹنڈولکر تھے، تو یہاں عمران خان اور جاوید میانداد، وہاں محمد اظہرالدین کپتان تھے تو یہاں وسیم اکرم، وہاں مہندرا سنگھ دھونی ایک نوجوان ٹیم کی قیادت کر رہے تھے تو شعیب ملک کی ٹیم میں بھی مستقبل کے اسٹارز تھے۔ لیکن ورلڈ کپ مقابلوں میں فتح کا قرعہ ہمیشہ بھارت کے نام ہی نکلتا رہا ہے۔
متعدد پاک بھارت مقابلوں میں بطور کھلاڑی اور کوچ شرکت کرنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹر ہارون رشید سمجھتے ہیں کہ بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان کےخلاف میچ کو میچ سمجھ کر کھیلتی ہے، اسی لیے اس کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انڈین کرکٹ بورڈ کی ڈومیسٹک کرکٹ پر زیادہ توجہ اور کھلاڑیوں کی گراس روٹ لیول پر تیاری سے بھارتی ٹیم کو اب فائدہ ہو رہا ہے۔
اُن کے بقول "انٹرنیشنل کرکٹ میں بہتر کارکردگی کے لیے ضروری ہے کہ کرکٹ بورڈ اپنے فرسٹ کلاس سیٹ اپ کو بہتر کرے، بھارتی کرکٹ بورڈ نے 90 کی دہائی میں ہی گراس روٹ لیول پر کام شروع کر دیا تھا اور آج ان کی ڈومیسٹک کرکٹ پاکستان سے کہیں آگے ہے۔"
ہارون رشید کے بقول، آئی سی سی ایونٹس ہوں یا کوئی بھی انٹرنیشنل میچ ہو، جو کھلاڑی سازگار ماحول میں کامیاب ہوتے ہیں، وہ ہر سطح پر ٹیم کے کام آتے ہیں۔ بھارت نے گزشتہ کئی برسوں میں اپنے بولرز پر بہت کام کیا جس کے بعد نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کی ہر ٹیم کے خلاف انہوں نے کامیابیاں سمیٹیں۔"
ہارون رشید کہتے ہیں کہ "بھارتی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ مقابلوں میں ہمیشہ پاکستان کو شکست دی ہے کیوں کہ وہ اپنے کمبینیشن پر محنت کرتے ہیں اور پریشر کو بہتر انداز میں ہینڈل کرتے ہیں۔ صرف پاکستان ہی کے خلاف نہیں، ان کی کارکردگی تمام ٹیموں کے خلاف یکساں ہی ہوتی ہے جب کہ پاکستان ٹیم بھارت کےخلاف میچ میں کچھ زیادہ پریشر لے لیتی ہے۔"
ہارون رشید کا یہ بھی کہنا ہے کہ ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ میں پاکستانی کھلاڑی بااعتماد نظر نہیں آتے۔ اپنی غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے وہ پریشر نہیں لے پاتے اور بھارت سے عالمی کپ کے مقابلوں میں ہار جاتے ہیں۔
ادھر 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف میچز میں اسکواڈ میں شامل آل راؤنڈر یاسر عرفات بھارت کے خلاف ناکامی کو ایک 'مسٹری' سمجھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ خود دو مرتبہ اس فائنل الیون کا حصہ رہ چکے ہیں جس نے بھارت کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی دکھائی، ایک مرتبہ میچ ٹائی ہوا تو دوسری بار صرف پانچ رنز سے پاکستان ٹرافی سے دور ہو گیا۔
اُن کے بقول "بھارت سے پاکستان آئی سی سی ایونٹس میں کیوں نہیں جیت سکا، اس کی کوئی وجہ بظاہر نظر نہیں آتی، مجھے خود یہ بات سمجھ میں نہیں آتی حالانکہ میں بھی افتتاحی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا حصہ تھا جہاں ہم نے بھارت سے دو میچز کھیلے۔ ہماری پرفارمنس ان دونوں میچوں میں بری نہیں تھی لیکن قسمت نے دونوں بار ہمارا ساتھ نہیں دیا۔"
پاک بھارت ٹاکرا، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کون سی ٹیم کامیاب ہو گی؟
ہارون رشید کا مزید کہنا تھا کہ اس بار بھی بھارتی ٹیم بھرپور تیاری کے ساتھ ایونٹ میں شرکت کر رہی ہے۔ لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں تیاری سے زیادہ موقع پر کیے جانے والے فیصلے ہار اور جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اُن کے بقول "بھارت کا کمبی نیشن اس وقت پاکستان سے ہر لحاظ سے بہتر ہے، ان کا بیٹنگ آرڈر سیٹ ہے، بولنگ کمبی نیشن بنا ہوا ہے جب کہ ان کی فیلڈنگ بھی کسی سے کم نہیں۔ اس کے برعکس پاکستان ٹیم کے نہ تو بیٹنگ آرڈر کا فیصلہ ہوا ہے اور نہ ہی ہماری فیلڈنگ مخالف ٹیم کے معیار کی ہے۔ لیکن پاکستان کے پاس وہ جذبہ ہے جو کسی بھی ٹیم کو اس دن ناقابلِ تسخیر بنا دیتا ہے۔ اسی جذبے نے چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کو تین مرتبہ بھارت کے خلاف کامیابی دلائی جو کوئی معمولی بات نہیں تھی۔"
ہارون رشید سمجھتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی غیر مستقل مزاجی اگر ان کی کمزوری ہے تو ان کا ہتھیار بھی۔ اس کے علاوہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی اپنی بے اعتباری کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا جو کسی ایک ٹیم کو اسپورٹ نہیں کرتا بلکہ اس ٹیم کا ساتھ دیتا ہے جو اس دن بہتر کھیل پیش کرے۔
اُن کے بقول "اتوار کو ایک بہترین مقابلہ دیکھنے کو ملے گا جس میں دونوں ٹیمیں اپنی 100 فی صد صلاحیتیں صرف کریں گی جہاں بھارت کی بیٹنگ پوری ٹیم کے گرد گھومتی ہے وہیں پاکستان ٹیم صرف بابر اعظم اور محمد رضوان پر انحصار کرتی ہے۔ اس دن پاکستان کو اچھا ٹارگٹ دینے یا اچھا اسکور پوسٹ کرنے کے لیے ان دونوں کھلاڑیوں کا چلنا بہت ضروری ہے۔"
ہارون رشید کہتے ہیں کہ اس میچ کو صرف ایک میچ کے طور پر لینا چاہیے۔ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں جنگ کا میدان نہ بنائیں۔ جو ٹیم اس دن بہتر کھیل پیش کرے گی اور اپنے اعصاب پر قابو کھے گی وہی فتح یاب ہو گی۔
دوسری جانب یاسر عرفات سمجھتے ہیں کہ بھارت کے خلاف نہ جیتنے کی کوئی تیکنیکی وجہ نہیں، دونوں ٹیموں کے درمیان فرق صرف مائنڈ سیٹ کا ہے۔
اُن کے بقول "24 اکتوبر کو ایونٹ میں دونوں ٹیم کا پہلا میچ ہو گا جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے اس کی اہمیت زیادہ ہو گی۔ تاہم جو ٹیم میچ میں بہتر مائنڈ سیٹ کے ساتھ آئے گی وہی کامیاب بھی ہو گی۔ میچ میں جذبے سے کھیلنا اچھی بات ہے لیکن اتنی ہی ضروری بیٹنگ اور بولنگ اپروچ بھی ہے، جس کا ماضی میں پاکستان ٹیم میں فقدان پایا گیا ہے۔"
یاسر عرفات سمجھتے ہیں کہ پاکستانی بلے بازوں کو چاہیے کہ وکٹ پر زیادہ عرصے تک رکیں اور سیٹ ہو کر جارحانہ موڈ میں آئیں، ماضی میں بھارت نے بھی یہی حکمتِ عملی اپنائی اور فتح سمیٹی۔
اُن کے بقول "ہمیں بھارت کو شکست دینے کے لیے بھارت سے ہی سیکھنا چاہیے کہ ان کے کھلاڑی کیسے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہیں، ہمارے بلے بازوں کو چاہیے کہ مخالف بولرز پر چانس لینے سے پہلے خود کو ایک موقع دیں، کم وقت کے باوجود تھوڑا سنبھل کر کھیلیں اور جب کریز پر سیٹ ہو جائیں تو جارحانہ کرکٹ کھیلیں۔"