|
نئی دہلی -- حالیہ دنوں میں بھارتی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں کافی کمزور ہوا ہے جس کی وجہ سے بھارتی ماہرین اقتصادیات تشویش میں مبتلا ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق جمعرات کو ایک ڈالر کی قیمت 85.76 روپے تھی۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق بھارتی روپے کی کمزوری کی متعدد ملکی و عالمی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بھارت میں مہنگائی میں اضافہ ہو رہا اور عوام کی جیبوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
روپے کی کمزوری کی ملکی وجوہات میں تجارتی خسارہ، افراطِ زر کی شرح میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹ کا تنگ ہوتا دائرہ، برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ اور کچھ حکومتی پالیسیاں بھی ہیں۔
عالمی وجوہات میں امریکی ڈالر کی مانگ میں اضافہ، خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، عالمی کساد بازاری اور بھارت کے تعلق سے عالمی کاروباریوں میں بد اعتمادی کی وجہ سے بھارتی مارکیٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی کم ہوتی دلچسپی قابلِ ذکر ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت امریکی ڈالر کی مانگ بڑھ رہی اور بھارتی روپے کی مانگ کم ہو رہی ہے۔ روپے کی مانگ بڑھتی ہے تو اس کی قدر بھی بڑھتی ہے اور مانگ کم ہوتی ہے تو قدر بھی کم ہوتی ہے۔ بڑھتی قدر کو ایپریسیئشن اور کم ہو تی قدر کو ڈیپریسیئشن کہتے ہیں۔ بھارتی روپیہ اس وقت ڈپریسیئشن کا شکار ہے۔
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت کا متواتر تجارتی خسارہ روپے کے گرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسی طرح ایک اور اہم وجہ کرنٹ افیئرز ڈیفیشٹ ہے۔
'خام تیل کی درآمد کی وجہ سے روپے پر دباؤ بڑھ رہا ہے'
سینئر اقتصادی تجزیہ کار وویک شکلا کہتے ہیں کہ بھارت کو درآمدات پر زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں اس کی برآمدات کا حجم کم ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنی توانائی کی 80 فی صد ضرورت خام تیل سے پوری کرتا ہے۔ بھارت کو اس کی ادائیگی ڈالر میں کرنی پڑتی ہے۔ حالاں کہ اب ایران اور روس بھارتی کرنسی میں لین دین کرنے لگے ہیں۔
عالمی بازار میں خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا بھارتی روپے پر دو طرح سے اثر ہوتا ہے۔ ایک بھارت کو مساوی مقدار میں تیل خریدنے پر زیادہ ڈالر دینا پڑتا ہے جس سے ڈالر کی مانگ بڑھتی ہے۔ دوسرے تیل کی زیادہ قیمتیں بھارت کے تجارتی خسارے کو بڑھاتی ہیں جس کا اثر روپے پر پڑتا ہے۔
ان کے مطابق جب تک بھارت توانائی کا مسئلہ حل نہیں کرتا یہ صورتِ حال بنی رہے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گویانا اور سوری نام میں حال ہی میں تیل کے بڑے ذخائر دستیاب ہوئے ہیں۔ اگر بھارت ان ملکوں سے تیل خریدے اور روپے میں لین دین کرے تو اس صورت حال پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت کے خام تیل کے 87 فی صد کی ادائیگی ڈالر میں ہوتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس نے مالی سال 2024 میں تیل کی درآمدات پر 134 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ادھر جوں جوں ڈالر مضبوط ہوتا ہے بھارت کے تیل کا بل بھی بڑھتا ہے۔
تیل ایندھن کی مصنوعات کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے ان زیادہ قیمتوں کا معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ اسے درآمدی افراطِ زر کہتے ہیں۔ اس سے یومیہ ضرورت کی چیزیں مہنگی ہوتی ہیں جن کا عوام کی جیبوں پر اثر پڑتا ہے۔
درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے ٹریڈ ڈیفیشٹ یعنی تجارتی خسارہ بڑھتا ہے۔ روپے کی کمزوری کے پیش نظر زیادہ خریدنے کا مطلب ہے زیادہ ادائیگی۔
وویک شکلا کہتے ہیں کہ آئی ٹی سیکٹر سے بھارت کو کافی غیر ملکی زرِ مبادلہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ملکوں میں جو لاکھوں بھارتی کام کرتے ہیں وہ سالانہ کھربوں روپے کا غیر ملکی زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ بھارت کو اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا ہو گا۔
تجزیہ کار کے مطابق امریکہ کے مقابلے میں بھارت میں افراطِ زر کی شرح زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت کو ڈالر میں خریداری کرنے میں اس کے مقابلے میں زیادہ پیسہ دینا پڑتا ہے۔ افراطِ زر میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے اور قوت خرید بنائے رکھنے کی وجہ سے بھی روپیہ کمزور ہوتا ہے۔
بھارت اور امریکہ میں شرحِ سود میں بھی فرق ہے۔ امریکہ میں جب شرحِ سود بڑھتی ہے تو وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی جانب زیادہ متوجہ کرتی ہے۔ سرمایہ کار زیادہ ریٹرن کی تلاش میں وہاں جاتے ہیں۔
عالمی بازار میں غیر یقینی صورتِ حال کا اثر بھارت پر بھی پڑتا ہے۔ اس سے بھارتی مصنوعات کی درآمد کی مانگ کم ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں بھارتی بازاروں میں امریکی ڈالر کا بہاؤ کم ہو جاتا ہے۔ سرمایہ کار چوں کہ امریکی ڈالر میں رقم چاہتے ہیں اس لیے وہ بھارتی بازاروں سے پیسہ نکالنے لگتے ہیں۔
اقتصادی ماہر وشنو کانت اپادھیائے کا کہنا ہے کہ غیر ملکی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کی جانب سے بھارتی بازار سے پیسہ نکالنے کی وجہ سے بھارتی معیشت پر دباؤ بڑھتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
وہ بتاتے ہیں کہ رواں مالی سال میں غیر ملکی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں نے بھارتی بازاروں سے نو لاکھ کروڑ روپے سے زائد نکال لیے۔ اس نے دیگر وجوہات کے ساتھ مل کر ایسی صورتِ حال پیدا کی ہے جو بھارتی معیشت کے حق میں نہیں ہے۔
ان کے مطابق ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) روپے کو عارضی طاقت فراہم کرنے کے لیے ڈالر مارکیٹ میں مداخلت کر سکتا ہے۔ تاہم وسیع تر اقتصادی عوامل ممکنہ طور پر روپے کو دباو میں رکھیں گے۔ کیش ریزرو ریشیو (سی آر آر) کے بارے میں فیصلے اور آر بی آئی کے دیگر اقدامات مارکیٹ کے جذبات اور لیکویڈٹی کو متاثر کر سکتے ہیں۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی ضروری نہیں کہ یہ اقدامات روپے کی کمزوری کو تھامنے میں مؤثر رول ادا کر سکیں۔
وویک شکلا کے مطابق ڈالر کی مضبوطی اور روپے کی کمزوری سے نقصان ہی نہیں فائدہ بھی ہوتا ہے۔ البتہ یہ فائدہ برآمد کاروں کو ملتا ہے۔ خاص طور پر آئی ٹی سروسز، ادویہ ساز کمپنیاں اور کپڑے کے تاجروں کا اس سے فائدہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سرمایہ کار سودے بازی کو پسند کرتے ہیں۔ روپے کی کمزوری کی صورت میں انھیں ڈالر کے مقابلے زیادہ روپیہ ملتا ہے۔ اس سے انڈین اسٹاک کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
لیکن بہرحال ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گوکہ کچھ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن مجموعی طور پر روپے کی کمزوری کا معیشت پر اور عوامی زندگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔
فورم