|
ویب ڈیسک—امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل کے باہر امریکی کار ساز کمپنی ٹیسلا کے ایک سائبر ٹرک میں دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور سات زخمی ہوئے ہیں۔ صدر جو بائیڈن نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
ریاست نیواڈا کے حکام نے کہا ہے کہ ٹیسلا کے سائبر ٹرک میں آگ لگی اور پھر دھماکہ ہوا جب کہ ٹرک میں آتش بازی کا سامان بھی موجود تھا۔
لاس ویگاس شہر کی پولس کے حکام اور کلارک کاؤنٹی کے فائر ڈپارٹمنٹ کے عہدیداران نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ واقعے میں ہلاک ہونے والا شخص سائبر ٹرک کے اندر موجود تھا جب کہ قریب موجود سات افراد زخمی ہوئے جن میں سے بعض کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
کارک کاؤنٹ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل کی پارکنگ میں موجود ٹرک میں آگے لگنے کی اطلاع بدھ کی صبح 8:40 پر ملی۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ اس ٹرک کو ایک آن لائن ایپلی کیشن ’ٹورو‘ کے ذریعے کرائے پر بلایا گیا تھا۔
ٹورو ایپ کے ترجمان نے فوری طور پر اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
دوسری جانب الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کے مالک ایلون مسک نے بدھ کی دوپہر سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ ہمیں اب تصدیق ہو چکی ہے کہ گاڑی میں دھماکہ اس میں موجود بڑی مقدار میں آتش بازی کے سامان میں ہوا ہے یا اس کے نیچے بم نصب تھا۔
ان کے بقول اس دھماکے کا گاڑی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دھماکے کے وقت گاڑی کی تمام ٹیلی میٹری معلومات مثبت تھیں۔
اس سے قبل مسک نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ ایسا پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا۔ البتہ ٹیسلا کے تمام اعلیٰ حکام اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
اس معاملے سے واقف ایک شخص نے شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام نے دہشت گردی کے ممکنہ محرکات کو تاحال مکمل طور پر مسترد نہیں کیا۔
تفتیشی ادارہ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) بھی اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔
لاس ویگاس میں ایف بی آئی حکام نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ بہت سے سوالات موجود ہیں۔ تاہم ابھی ایف بی آئی کے پاس ان کے جواب نہیں ہیں۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن کو بھی اس دھماکے سے متعلق بریفنگ دی گئی ہے۔
ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل ایک 64 منزلہ عمارت ہے جو کہ لاس ویگاس شاپنگ مال کے قریب واقع ہے۔
واقعے کے بعد ٹرمپ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ اور امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ وہ فائر ڈپارٹمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اس واقعے میں مستعدی کا مظاہرہ کیا۔
ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل میں سائبر ٹرک میں دھماکہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب اس سے کچھ گھنٹوں قبل نئے سال کے آغاز پر ریاست لوئزیانا کے شہر نیو اولینز میں مجمعے پر ایک شخص نے گاڑی چڑھا دی تھی۔
نیو اولینز واقعے میں 15 افراد ہلاک ہوئے جب کہ پولیس نے فائرنگ کر کے گاڑی کے ڈرائیور کو بھی ہلاک کر دیا۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ان دونوں واقعات کے بعد ایک مختصر خطاب کیا ہے جس میں نیو اولینز کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ ایف بی آئی تحقیقات کر رہی ہے کہ ہوا کیا ہے اور ایسا کیوں ہوا ہے؟ اور کیا اس طرح کا کوئی اور خطرہ موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حملہ آور کے حوالے سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق وہ امریکی شہر تھا۔ اس کی پیدائش ریاست ٹیکساس میں ہوئی تھی اور اس نے امریکہ کی فوج میں بھی کئی سال تک خدمات انجام دی تھیں۔ وہ چند سال قبل تک ریزرو فوجیوں میں شامل تھا۔
جو بائیڈن نے مزید کہا کہ ایف بی آئی نے یہ بھی بتایا ہے کہ حملہ آور نے حملہ کرنے سے کئی گھنٹوں قبل سوشل میڈیا پر ویڈیوز اپ لوڈ کی تھیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ داعش سے متاثر تھا۔
انہوں نے کہا کہ حملہ آور کی گاڑی سے داعش کا جھنڈا ملا ہے جب کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد بھی موجود تھا۔
لاس ویگاس میں ہونے والے دھماکے کا ذکر کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل کے باہر ہونے والے دھماکے کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جینس حکام اس واقعے کی بھی تحقیقات کر رہی ہیں۔
ان کے بقول امریکی تحقیقاتی ادارے یہ جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ آیا ان دونوں حملوں کا آپس میں کسی قسم کا کوئی تعلق تو نہیں ہے؟ البتہ ابھی تک اس حوالے سے کسی قسم کی معلومات سامنے نہیں آئیں۔
دوسری جانب نیو اورلینز میں نیو ایئر پر ہجوم پر چڑھنے والی گاڑی اور لاس ویگاس میں ٹرمپ ہوٹل کے ٹیسلا کے جس سائبر ٹرک میں دھماکہ ہوا تھا، دونوں ہی جار رینٹل کمپنی 'ٹورو' سے بُک کیے گئے تھے۔ دونوں واقعات کے بعد کار کمپنی 'ٹورو' کی جانب سے بیان سامنے آیا ہے۔
کمپنی نے بیان میں کہا ہے کہ "ہمیں نہیں معلوم کہ کار بک کرنے والے شخص کا جرمانہ ریکارڈ تھا جس کی وجہ سے اس کی شناخت سیکیورٹی کے خطرے کے طور پر ہوئی ہو گی۔ ہم فی الحال ایسی کسی بھی معلومات سے واقف نہیں ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ دونوں واقعات کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔"
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔