امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کی جانب سے ہزاروں خفیہ امریکی سفارتی دستاویزات کے اجراء سے امریکہ کی جاری خارجہ پالیسی پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بدھ کے روز قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں اپنے قازق ہم منصب کنات سعود بایوف کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں امریکی وزیرِ خارجہ نے امید ظاہر کی کہ خفیہ دستاویزات کے اجراء سے امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب نہیں ہونگے۔
کلنٹن "یورپی تنظیم برائے سلامتی اور تعاون" کے سربراہ جلاس میں شرکت کی غرض سے آستانہ میں موجود ہیں۔ بدھ کے روز امریکی وزیرِ خارجہ نے کانفرنس میں شرکت کیلیے آئے ہوئے کئی عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ کلنٹن نے جن رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں ان میں سے کئی کا تذکرہ افشاء ہونے والی سفارتی دستاویزات میں موجود ہے۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان ملاقاتوں میں وکی لیکس کے انکشافات کے بعد باہمی تعلقات کی صورتِ حال پر غور کیا گیا۔
پریس کانفرنس میں کلنٹن کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے شراکت داروں کو یہ یقین دلانا چاہتی ہیں کہ سفارتی دستاویزات کے افشاء سے امریکہ کی خارجہ پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی اس سے امریکہ کی جانب سے کیے جانے والے 'اہم اقدامات' متاثر ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ وکی لیکس کے اقدامات کی بدولت کوئی ملک امریکہ کے ساتھ تعاون یا باہمی اہمیت کے معاملات پر گفتگو سے انکار کرے گا۔
کلنٹن کا کہنا تھا کہ انہیں اندازہ تھا کہ ان کے دورہ قازقستان کے دوران خفیہ دستاویزات کا معاملہ سرِ فہرست رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ یورپی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کیلیے ان کی آستانہ آمد کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ امریکہ کے دوست ممالک کو یہ یقین دہانی کراسکیں کہ اوباما انتظامیہ ان کے ساتھ اشتراک کے ایک وسیع اور جامع ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔
وکی لیکس کی جانب سے جاری کی گئی خفیہ امریکی سفارتی دستاویزات دنیا بھر میں موجود امریکی سفارت کاروں کی جانب سے واشنگٹن کے محکمہ خارجہ کو بھیجی جانے والی رپورٹس پر مبنی ہیں۔ ان رپورٹس میں مبینہ طور پر کئی عالمی رہنمائوں کے بارے میں بے لاگ آراء اور مخالفانہ تجزیوں کا اظہار کیا گیا ہے۔
جاری کی گئی رپورٹس میں قازقستان کے صدر نورالسلطان نذربایوف کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سردیوں کا موسم اپنے دارالحکومت کے بجائے خلیجی ممالک میں گزارنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے بدھ کے روز قازق صدر سے بھی ملاقات کی جس کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں قازق وزیرِ خارجہ سعود بایوف کا کہنا تھا کہ سفارتی دستاویزات کے اجراء سے ان کے ملک اور امریکہ درمیان جاری اشتراکِ عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
کلنٹن نے اٹلی کے وزیرِ اعظم سلویو برلسکونی سے بھی ملاقات کی جنہیں جاری کی گئی سفارتی دستاویزات کے مطابق امریکی سفارت کار ایک "گھمنڈی" اور "غیر کارآمد" فرد قرار دیتے ہیں۔
تاہم اطالوی وزیرِ اعظم سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران مسٹر برلسکونی امریکہ کے سب سے بہتر دوست ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے سب سے بڑھ کر امریکی پالیسیوں کی مستقل حمایت کا عمل جاری رکھا ہے۔