پاکستان - چین اقتصادی راہداری کے عظیم تر منصوبے کے تحت توانائی کے انفراسٹرکچر میں چینی سرمایہ کاری کے فوائد کسی حد تک ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ہوائی چکیوں سے بجلی پیدا کرنے کے سب سے پہلے منصوبے کا آغاز ہو گیا ہے۔
کراچی سے دو گھنٹے کی مسافت پر موجود سیاحوں کی من پسند کینجھر جھیل کے قریب جھمپیر میں 680 ایکڑ یعنی تقریباً 275 ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ونڈ فارم میں 50 میگاوٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔
جھمپیر فارم گھارو۔جھمپیر ونڈ کوریڈور کا حصہ ہے اور پاکستان کے محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ سندھ کی 180 میل لمبی ساحلی پٹی میں ہوائی چکیوں سے 11,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
اسی ساحلی پٹی میں سن 2009 میں پاکستان کا پہلا ہواسے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر چند ٹربائنوں سے کام شروع کیا گیا اور پھر 2012 میں اس کی استعداد بڑھا کر 56 میگاواٹ تک پہنچایا گیا۔ گزشتہ ماہ جو نیا ونڈ فارم منصوبہ شروع کیا گیا ہے اسے سچل انرجی ڈویلپمنٹ نامی کمپنی تعمیر کر رہی ہے اور اس کیلئے مالی سرمایہ چین کے صنعتی اور کمرشل بینک نے فراہم کیا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان اب تک اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت توانائی اور انفراسٹرکچر منصوبوں کیلئے 57 ارب ڈالر کے معاہدے طے پا چکے ہیں۔ توانائی کے زیادہ تر منصوبے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کیلئے ہیں اور ان منصوبوں کیلئے نا صرف تھر میں کوئلے کی کانوں سے کوئلہ استعمال کیا جائے گا بلکہ بیرونی ممالک سے بھی درآمد کیا جائے گا۔
اس وقت پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 23,000 میگاواٹ ہے جبکہ انتہائی طلب کے دوران بجلی کی کمی 5,000 میگا واٹ ہوتی ہے۔ تاہم آبادی میں مسلسل اضافے کے ساتھ بجلی کی طلب بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اگلے چند برسوں کے دوران نیشنل گرڈ میں 17,000 میگاواٹ مزید بجلی شامل ہونے کی توقع ہے۔ ان میں زیادہ تر منصوبے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ ماہ ساہیوال میں 1,320 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا آغاز ہو چکا ہے۔
تاہم گھارو۔جھمپر ونڈ کوریڈور جس کی منصوبہ بندی امریکہ کی قومی متبادل توانائی کی لیبارٹری نے کی تھی شور زدہ رقبے پر محیط ہے جو کاشتکاری کیلئےموزوں نہیں ہے۔ یہاں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے 13 منصوبوں پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ تکمیل کے بعد یہ پاکستان میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کا سب سے بڑا فارم ہو گا۔