امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے کہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر اس بات کو یقینی بنانے پر بات چیت ہوئی ہے کہ دہشت گرد دوبارہ افغانستان کو امریکہ کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔
سلیون نے یہ بات پیر کو ایک پریس بریفنگ کے دوران ایک ایسے وقت کہی ہے جب امریکہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان میں اپنے فوجی اثاثے رکھنے کے لیے سہولت حاصل کرناچاہتا ہے۔
تاہم اسلام آباد نے باضابطہ طور پر واشنگٹن کو بتا دیا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد وہاں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے واشنگٹن کو فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا۔
لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان ماضی کے برعکس امریکہ کو افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے اپنا مشروط تعاون فراہم کر سکتا ہے۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون کا کہنا ہے کہ ہماری اسلام آباد کے ساتھ سفارتی اور ملٹری انٹلی جنس کی سطح پر تعمیری بات چیت ہوئی ہے تاکہ اٖفغانستان دوبارہ شدت پسند گروپ القاعدہ یا داعش یا کسی دوسرے دہشت گروپ کا اڈہ نہ بن سکے جہاں سے وہ امریکہ پر حملہ کر سکیں۔ تاہم امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر نے پاکستان کی اعلیٰ عہدیداروں سے ہونے والے گفتگو کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی ہے۔
سلیون نے کہا کہ امریکہ کی کئی دیگر ممالک کے ساتھ بھی اس حوالے سے بات چیت جاری ہے کہ کس طرح ہم مستقبل میں افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک موثر دفاعی اور انٹیلی جنس صلاحیت کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر کے بیان کے بعد پاکستان میں یہ معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے کہ امریکہ کی بھی یہ کوشش ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد امریکہ افغانستان میں کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان سے زمینی یا فضائی کارروائیوں سے متعلق کوئی سہولت حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔
تاہم پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے واشنگٹن کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ پاکستان افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد انسداد دہشت گردی کے کارروائیوں کے لیے امریکہ کو فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا۔
ددسری جانب پاکستانی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان رابطوں اور بات چیت کی تصدیق کی ہے لیکن پاکستانی عہدیداروں کے بقول اسلام آباد نے واشنگٹن کو بتا دیا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنا ممکن نہیں ہے اور امریکی عہدیدار اس معاملے کو باہمی رابطوں میں زیر بحث نہیں لارہے ہیں۔
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ یہ خدشہ موجود ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں سیکیورٹی کی صورت حال بگڑ سکتی ہے اور بعض دہشت گرد دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اسی لیے ان کے بقول امریکہ افغانستان کے پڑوسی ممالک بشمول پاکستان میں اپنے فوجی اثاثوں کے لیے سہولت چاہتا ہے۔
تاہم بقائی کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ان کے خیال میں امریکہ کے لیے دو آپشن تھے یا وسط ایشائی ریاستیوں میں انہیں فوجی اڈے مل جاتے یا پاکستان میں۔ لیکن ان کے بقول روس کے تحفظات کی وجہ سے وسط ایشیائی ریاستیں اس پر تیار نہیں۔
اگرچہ پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار بھی امریکہ کو اس طرح کی کوئی سہولت فراہم کرنے کے امکان کو مسترد کر چکے ہیں، لیکن ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستانی عہدیداروں کے بیانات کے مخاطب عام لوگ ہیں۔ لیکن ان کے بقول وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اور یہ بات غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں آ چکی ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے فوجی اڈے فراہم کی درخواست کی ہے۔ اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان پہلی بار امریکہ کو مشروط سہولت فراہم کر سکتا ہے۔
تاہم پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ شاید اس بات پر پاکستان رضامند نہ ہو۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شمشاد احمد خان نے کہا کہ جہاں تک عام پاکستانیوں کا سوال ہے، وہ حکومت کی پالیسی کی مکمل حمایت کرتے ہیں کہ اڈے نہیں دینے چاہیئں اور کسی جنگ میں پاکستان کو شامل نہیں ہونا چاہیے۔ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ عمران خان یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ کسی پرائی جنگ میں شامل ہونا پاکستان میں مفاد میں نہیں ہے اور وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اب ہماری توجہ پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے پر ہو گی۔
لیکن ہمابقائی کا کہنا ہیں کہ پاکستان اس صورت حال پر ایک محتاط انداز اختیار کیے ہوئے ہے کیونکہ ان کے بقول پاکستان کو اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان اس صورت حال میں اپنے تعلقات کا توازن برقرار رکھنا ہے۔
لیکن ہما بقائی کا کہنا ہے کہ بیجنگ کو بھی یہی تشویش ہے کہ امریکہ کا جلد اور اچانک انخلا خطے کے لیے کئی سیکیورٹی چیلنجز کا موجب بنے گا۔
ہما بقائی کا کہنا ہے ان کے خیال میں شاید پاکستان اس بار مشروط طور پر اڈے فراہم کر سکتا ہے، لیکن یہ سہولت ایسی نہیں ہو گی جیسے ماضی میں اس حوالے سے امریکہ یہ سہولت بغیر کسی حدد و قیود کے فراہم کرتا رہا ہے۔
ہمابقائی کا ہے کہ اب امریکہ اور پاکستان کے درمیان اس حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے اور ان کے بقول جب یہ معاملہ باہمی مفاد کے تحت طے پا جائے گا تو شاید پھر عوام کو یہ کہہ دیا جائے کہ ایسا کرنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔
ہما بقائی کا کہنا ہے طالبان کی طرف سے مخالفت ہو سکتی ہے لیکن افغانستان کی سیکیورٹی کی صورت حال اور افغان سیکیورٹی فورسز کی استعداد کار کو دیکھتے ہوئے شاید پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون کر سکتا ہے۔
ہمابقائی کا کہنا ہے کہ وہ اس سے آگاہ نہیں کہ حکومت کی پالیسی کیا ہو گی لیکن ان کے بقول یہ ان کا اپنا اندازہ ہے کہ شاید پاکستان، امریکہ کے افغان مشن کے لیے مشروط طور پر سہولت فراہم کر دے۔
ہمابقائی کا خیال ہے کہ شاید چین کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہو گا۔
یاد رہے کہ طالبان قبل ازیں کہہ چکے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کے بعد وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ خطے میں امریکہ کے سیکیورٹی اثاثے موجود رہیں۔
لیکن شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد سے فوجی اڈے حاصل کرنے کی بجائے واشنگٹن کو چین، روس اور پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششی جاری رکھنی چاہیئں۔
یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کا عمل جاری ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ انخلا 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن سے پہلے مکمل ہو سکتا ہے۔