نیٹو کے چوٹی کے عہدیدار نے غیر مبہم اور بے دھڑک انداز میں کہا ہے کہ اس بارے میں کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ امریکی اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغان حکومت یا اس کی سیکیورٹی فورسز کامیاب ہو سکیں گی۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینز اسٹولٹنبرک نے پیر کے روز پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس میں ملاقاتوں سے قبل آن لائن نشستوں میں کہا کہ افغانستان میں صورتِ حال بہت غیر یقینی ہے۔
’’ ہمیں حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے۔ اور وہاں صورت حال میں بلاشبہ بہت غیر یقینی پائی جاتی ہے‘‘
انہوں نے مزید کہا ’’ (افغانستان سے) نکلنے کا فیصلہ اپنے اندر بہت سے خطرات رکھتا ہے‘‘
امریکہ کے سینٹرل کمانڈ (سینٹکام)، جو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امریکی فوجوں کے آپریشن کا نگران ادارہ ہے، کے مطابق افغانستان سے انخلاء کا تقریباً نصف عمل مکمل ہو چکا ہے اور یہ کام ستمبر کے شروع میں پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔
نیٹو نے بھی اپنے باقی ماندہ سات ہزار فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹنبرگ نے بھی طالبان، القاعدہ اور داعش جیسیے گروپوں کے خلاف تقریباً دو عشروں تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد اپنے دستوں کو افغانستان سے نکالنے کے فیصلے کا دفاع کیا۔
’’ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک لحاظ سے مرحلہ وار بہتری آئی ہے۔ چند سال قبل افغانستان میں ہمارے ایک لاکھ فوجی لڑاکا آپریشن کا حصہ تھے‘‘۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ان برسوں میں ہم نے افغان سیکیورٹی فورسز تشکیل دی ہیں، ان کو تربیت فراہم کی ہے تاکہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھا سکیں‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ اگر افغان سیکیورٹی فورسز کو زمین پر امریکی اور نیٹو فورسز کی خاطر خواہ امداد نہ ملے تو ان کے بروئے کار آنے کی اہلیت کے بارے میں شبہات ہو سکتے ہیں۔
ادھر گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی پابندیوں اور نگرانی (سینکشنز اینڈ مانیٹرنگ) والی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ طالبان کمانڈروں نے اپنے جنگجووں کو بڑی تعداد میں تعینات کر دیا ہے اور جو کچھ وہ مذاکرات میں حاصل نہیں کر سکے تھے، وہ بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طاقت سے حاصل کر لیں گے۔
امریکہ کے کئی فوجی کمانڈروں نے بھی افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے امریکی فورسز کے انخلا کے بعد صورت حال کو سنبھالے رکھنے کی اہلیت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تاہم نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینز اسٹولٹنبرگ نے پیر کے روز ایک بار پھر کہا کہ اگرچہ نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کر رہی ہیں، اتحاد کابل کی مالی امداد جاری رکھے گا اور افغانستان میں اس کا سویلین عملہ بھی موجود رہے گا تاکہ افغان افواج کو اپنی استعداد کار بڑھانے سے متعلق مشاورت فراہم کر سکے۔
اسٹولٹنبرگ نے کہا کہ افغان فورسز کی ملک سے باہر تربیت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
’’ ہم دوسرے ملکوں میں افغان فوج کو تربیت فراہم کر سکتے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم انہیں کس طرح کی مدد فراہم کر سکتے ہیں‘‘۔
دوسری جانب اسلام آباد نے باضابطہ طور پر واشنگٹن کو بتا دیا ہے کہ جنگ زدہ ملک افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے بعد وہاں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے واشنگٹن کو فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا۔
سیکیورٹی امور سے متعلق پاکستان کے ایک سینئر عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ امریکی عہدے داروں سے اس بارے میں بات ہوتی رہی ہے، لیکن ہم نے انہیں بتا دیا ہے کہ ہم اس ملک میں دہشت گردی نہیں چاہتے لیکن فوجی اڈے فراہم کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس کے بعد سے وہ اس موضوع پر ہم سے بات نہیں کر رہے۔
صدر بائیڈن کی جانب سے 11 ستمبر تک افغانستان سے تمام فوجی نکال لینے کے اعلان کے بعد امریکہ کی قومی سلامتی کی ٹیم علاقائی اتحادیوں سے انخلا کے بعد معلومات اکھٹی کرنے اور ضرورت پڑنے پر دہشت گردوں پر فضائی حملوں کے لیے فوجی سہولتوں کی فراہمی کے بارے میں بات چیت کرتی رہی ہے۔
امریکہ نے بھی آئندہ دو برسوں کے لیے کابل حکومت کی مدد کا اعادہ کیا ہے تاکہ افغان سیکیورٹی فورسز کو مضبوط بنایا جا سکے۔
صدر جو بائیڈن نے سال2022 کے بجٹ میں افغانستان کی فوجی امداد کے لیے تین اعشاریہ تین ارب ڈالر تجویز کیے ہیں۔ یہ رقم موجودہ فنڈنگ سے تھوڑی زیادہ ہے۔
اتوار کو افغان حکومت کے ترجمان نے بھی بتایا تھا کہ امریکہ نے سال 2023 تک فنڈز کی یہ سطح برقرار رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔
ادھر افغانستان میں امن عمل کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے منگل کو افغانستان کے ٹیلی ویژن طلوع نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ افغانستان کے لیے اس نازک موڑ پر دو ہی راستے ہیں، ایک راستہ سیاسی تصفیے کا ہے اور دوسرا جنگ جاری رکھنے کا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجی حل کی کوشش کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جنگ جاری رہے تاہم زلمے خلیل زاد نے اعتراف کیا کہ دوحہ میں جاری امن عمل سست روی کا شکار ہے اور دونوں اطراف کے مذاکرات کاروں نے ان کے بقول اصل مسئلے پر توجہ نہیں دی ہے۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلا کے باوجود اس کے ساتھ اپنی وابستگی ختم نہیں کی۔
ادھر امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے پیر کے روز تصدیق کی تھی کہ امریکہ پاکستان کے فوجی، انٹیلی جنس اور سفارتی چینیلز کے ساتھ اس بارے میں تبادلہ خیال کر رہا ہے کہ افغانستان دوبارہ کبھی بھی دہشت گرد گروپوں کی پناہ گاہ نہ بن سکے جہاں بیٹھ کر وہ امریکہ پر حملے کی منصوبہ بندی کریں۔ تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا ہے۔
اسی اثنا میں وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق کئی سیاسی رہنماؤں نے، جنہوں نے زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی ہے، بتایا ہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کانفرنس میں شریک ہوں اور پاکستان کے ساتھ اپنے اختلافات کا حل نکالیں۔
پاکستان اور افغانستان کے عہدیداروں نے دونوں ملکوں کی جانب سے مشترکہ کانفرنس منعقد کرانے پر باضابطہ ردعمل نہیں دیا ہے۔
ایک تجزیہ کار طائق فرہادی نے کہا ہے کہ اگر طالبان بھی افغانستان اور پاکستان کی طرف سے منعقدہ مشترکہ کانفرنس میں شرکت کرتے ہیں تو افغانستان میں بحالی امن کی جانب ایک اچھا قدم ہو گا۔