طالبان سیکیورٹی فورسز نے منگل کو افغانستان میں خواتین پر عائد پابندیوں کے خلاف کابل میں ہونے والے احتجاج کی شرکاٗ کو منتشر کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ کی۔احتجاج میں شریک خواتین نے صنف کی بنیاد پر تعصب پر مبنی سلوک کے خلاف نعروں پر مبنی پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔
مظاہرین نے دارالحکومت کابل میں 'امر بالمعروف اور نہی عن المنکر' نامی وزارت کی عمارت کی طرف سڑکوں پر مارچ کیا۔طالبان کے مطابق، یہ وزارت افغانستان میں اسلامی قوانین کی پابندی کی ذمے دار ہے۔ احتجاج کرنے والی خواتین کے ہاتھوں میں موجود بینرز پر تحریر تھا:
"ہم امتیازی سلوک سے تنگ آچکے ہیں"
"ہم بھوک سے متاثرہ لوگوں کی آواز ہیں۔"
"ہم خواتین بیدار ہیں اور امتیاز سے نفرت کرتی ہیں۔"
ایک بینر یہ بھی لکھا تھا کہ، "اسکول کیوں بند کئے گئے ہیں؟"
احتجاج کرنے والی خواتین،ملازمت،خوراک اور تعلیم کی فراہمی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
ایک افغان خاتون ہدیٰ خاموش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مظاہرین نے خواتین کے امور کی سابقہ وزارت کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انہیں روکنے کے لئے طالبان نے ہوائی فائرنگ کر دی۔
ہدیٰ نے دعوی کیا کہ مظاہرے میں شامل کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے۔ تاہم،وائس آف امریکہ آزاد ذرائع سے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔
طالبان عہدیداروں نے فوری طور پر اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
مظاہرے کے مناظر افغان ٹیلی ویژن چینلز پر دکھائے گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 30 کے قریب خواتین منگل کے روز کابل کے مرکز میں ایک مسجد کے قریب جمع ہوئیں اور مارچ شروع کیا۔ وہ "انصاف، انصاف" کے نعرے لگا رہی تھیں۔ بعد میں طالبان فورسز کی جانب سے انہیں روک دیا گیا۔
اس مظاہرے سے دو روز پہلے طالبان نے افغانستان بھر میں خواتین پر محرم کے بغیر سفر کرنے پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔
نئے ضابطوں کے تحت خواتین پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ 72کلو میٹر سے زیادہ سفر اس وقت تک نہیں کر سکتیں جب تک کہ ان کے ساتھ کوئی قریبی مرد عزیز نہ ہو۔
اس ضابطے کے تحت ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صرف ان خواتین کو سواری مہیا کریں جو سر پر سکارف یا حجاب پہنے ہوں اور دورانِ سفر موسیقی سننے سے گریز کریں۔
طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے اب ملک میں لڑکوں کو اسکول جانے کی اجازت ہے اور بعض صوبوں میں لڑکیوں کے اسکول بھی کھل گئے ہیں۔ تاہم بہت سے مقامات پر اب بھی لڑکیاں سکول جانے کی منتظر ہیں اور خواتین کی اکثریت کو ملازمتوں پر واپس جانے کی اجازت نہیں ہے۔
گذشتہ ماہ طالبان کی وزارت نے افغانستان میں ٹی وی چینلز کو ہدایت کی تھی کہ وہ ڈرامے اور دیگر ایسے پروگرام دکھانا بند کر دیں جن میں خواتین فنکار ہوں اور ساتھ ہی خواتین نیوز اینکرز کے لئے نشریات کے دوران حجاب پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔
اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد اس انتہائی قدامت پسند گروپ نے اپنی پہلی عبوری کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں کوئی خاتون شامل نہیں تھی۔
امریکہ اوربین الاقوامی برادری نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اور طالبان کے 1996 سے 2001کے دور میں سخت گیر اقدامات کے باعث خبر دار کیا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ان کے رویے کو دیکھ کر کیا جائے گا کہ آیا یہ گروپ انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے یا نہیں۔ اور یہ کہ افغانستان میں ایسی حکومت قائم کی جائے جو سب طبقات کی نمائندگی کرتی ہو اور دہشت گرد گروپوں سے علیحدگی کا اعلان کرے۔
یاد رہے طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ بدل گئے ہیں۔ اس کے اظہار کے لئے انہوں نے شادی اور جائیداد سے متعلق خواتین کے حقوق کا ایک باقاعدہ فرمان بھی جاری کیا۔ تاہم، خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے مسائل شادی اور جائیداد تک محدود نہیں بلکہ تعلیم اور ملازمت کا حق ملنا بھی ہیں۔