افغان دارالحکومت کابل میں منگل کے روز امریکی سفارت خانے کی بند عمارت کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا، جس میں مظاہرین نے کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر 'ہمیں ہماری منجمد رقوم واپس کی جائیں' اور 'ہمیں کھانے دو' جیسے نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے اس موقع پر امریکہ کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
ایک اور پیش رفت میں درجنوں افغان نجی کاروباری اداروں کے نمائندوں نے بھی کابل میں احتجاجی مظاہرے کیے جن میں امریکہ سے افغان اثاثے جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ مظاہرین نے یہ بات اجاگر کی کہ طالبان کو سزا دینے کے لیے کیے گئے اس اقدام کے نتیجے میں ''غیر سیاسی'' افغان نجی شعبے اور عام کارکنان پر ان کے بقول تباہ کُن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
مظاہروں کے منتظمین نے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو لکھے گئے ایک کھلے خط کی نقول تقسیم کیں جس میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خاتمے پر سرکاری کانٹریکٹس کے ضمن میں سرانجام دی گئی خدمات کے عوض اور بین الاقوامی فنڈز پر چلنے والے منصوبوں کی مد میں 60 کروڑ ڈالر سے زائد کی وہ رقوم جو ادا کی جانی تھیں، انھیں جاری کرنے کا بندوبست کیا جائے۔
اگست کے وسط میں جب طالبان عسکریت پسند گروپ نے جنگ زدہ ملک کا کنٹرول سنبھالا، اس کے فوری بعد امریکہ نے لگ بھگ 9 ارب 40 کروڑ ڈالر کی افغانستان کی رقوم منجمد کر دیں، جن میں سے زیادہ تر امریکی فیڈرل ریزرو میں جمع تھیں۔
اثاثے منجمد کرنے اور بین الاقوامی پابندیاں عائد کرنے کے نتیجے میں افغان معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، چونکہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران ملکی معیشت کا انحصار انتہائی حد تک بیرونی امداد ہی پر تھا۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے بھی ترقیاتی منصوبوں کے لیے جاری مالی اعانت روک دی ہے۔
افغانستان کو درپیش اس بحران کے نتیجے میں بنیادی انسانی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہی ہیں، جب کہ پہلے ہی ملک کئی برسوں تک جاری رہنے والی لڑائیوں، خشک سالی اور شدید غربت کے باعث پریشان حال تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تقریباً چار کروڑ کی آبادی کو فاقہ کشی کا سامنا ہے، جب کہ غذائیت کے شدید فقدان کے باعث 10 لاکھ بچوں کی ہلاکت کا خدشہ لاحق ہے۔
ادھر، واشنگٹن میں پیر کے روز 46 قانون ساز جن کا تعلق زیادہ تر ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے، امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک مراسلہ تحریر کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تعزیری اقدام میں نرمی برتتے ہوئے منجمد افغان رقوم جاری کی جائیں۔ قانون سازوں نے کہا کہ ''امریکہ کی جانب سے 9.4 ارب ڈالر ضبط کرنے کا عمل، جن میں سے زیادہ تر رقوم افغانستان کے کرنسی ریزرو کی شکل میں امریکہ میں جمع تھیں، اس تعزیری اقدام کے نتیجے میں افغانستان میں مہنگائی سنگین صورت اختیار کر گئی ہے، کمرشل بینک بند پڑے ہوئے ہیں، اور اہم نجی کاروبار ٹھپ پڑا ہے، جس کے باعث معاشی اور بنیادی انسانی بحران نے شدت اختیار کر لی ہے''۔ انھوں نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ تعزیری نوعیت کی معاشی پابندیوں کی وجہ سے طالبان رہنما کمزور نہیں ہوں گے، بلکہ اس کے نتیجے میں بے گناہ افغان عوام کا نقصان ہو رہا ہے، جو پہلے ہی عشروں سے جاری لڑائی اور غربت کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ منجمد رقوم کے حوالے سے اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی انتظامیہ نے افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جاری کام کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔
قانون سازوں کے مراسلے کے معاملے پر وائس آف امریکہ کے ایک سوال پر وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ افغان ریزرو کے معاملے پر صورت حال یہ ہے کہ اس ضمن میں 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے علاوہ دیگر دہشت گرد حملوں میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے لواحقین اور اہل خانہ کی جانب سے عدالتوں میں کی گئی قانونی چارہ جوئی میں طالبان کے خلاف اور اپنے حق میں فیصلے کے منتظر ہیں۔
جین ساکی نے کہا کہ ''عالمی دہشت گرد گروپ کے طور پر پہلے ہی امریکہ کی جانب سے طالبان پر پابندیاں عائد ہیں۔ یقینی طور پر اس اقدام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لیکن فنڈز کے معاملے پر جاری قانونی چارہ جوئی نے معاملے کو گنجلک بنا دیا ہے''۔
طارق فرہادی ایک سابق افغان اہل کار اور تجزیہ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبان مرکزی بینک کو مکمل طور پر آزاد ادارے میں تبدیل کر دیں، جس کی سربراہی غیر طالبان اور پیشہ ور ماہر کریں؛ جس کی جانچ پڑتال کا کام بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سپرد ہو۔
فرہادی کے الفاظ میں ''افغانستان کو یہ فنڈز امداد کے لیے درکار ہیں نہ کہ سیکیورٹی کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ اس لیے مرکزی بینک کی جانچ پڑتال میں ہی اس کا جواب مل جائے گا۔ مرکزی بینک کے آزاد ہونے سے یہ ممکن ہو گا کہ افغانستان کو قسطوں میں ریزرو فنڈ جاری کیے جائیں، جس سے افغان معیشت کی زیادہ مؤثر انداز سے مدد ہو سکتی ہے''۔
بائیڈن انتظامیہ عسکریت پسند گروپ پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں سے تعلقات ختم کر دیں، جن میں القاعدہ بھی شامل ہے، معزول حکومت کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کے خلاف بدلہ لینے کا سلسلہ بند کیا جائے، افغانستان میں جامع حکومت تشکیل دی جائے، انسانی حقوق کی پاسداری کی جائے، اور خواتین کو عام معمولات زندگی میں آزادانہ شرکت کی مکمل آزادی دی جائے اور بچیوں کو اسکول جانے دیا جائے۔