پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے شہر ملتان کے نزدیک مخدوم رشید علاقے میں ایک خاتون نے ایک شخص پر تیزاب پھینک کر اسے شدید زخمی کر دیا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی خبروں کے مطابق خاتون پہلے سے شادی شدہ تھی اور چار بچوں کی ماں تھی مگر اپنے شوہر سے طلاق لے کر اس شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی۔
جب اس نے شادی سے انکار کیا تو مبینہ طور پر خاتون نے ملاقات کے بہانے اسے بلا کر اس پر تیزاب پھینک دیا جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔
پولیس نے نوجوان کے رشتہ داروں کی اطلاع پر مقدمہ درج کر لیا ہے اور مذکورہ خاتون کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ واقعہ قابل مذمت ہے۔
’’یقیناً یہ ایک سنگین جرم ہے چاہے وہ عورت کے خلاف کیا جائے یا مردوں کے خلاف ہمارا مؤقف ایک ہی ہے ۔۔۔ مگر ظاہر یہ جرم عورتوں کے خلاف زیادہ کیا جاتا ہے اگر آپ اعداد و شمار دیکھیں۔ مردوں پر بھی اگر ہوتے ہیں تیزاب پھینکنے کے کیسز تو (حملہ آور) دوسرے مرد ہی ہوتے ہیں۔ یہ بہت ہی کم ہوتا ہے کہ عورت ایسا جرم کرے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ ملک میں تیزاب سے حملوں اور جلانے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون موجود ہے اور ایسے کیسوں کی پیروی میں معمولی بہتری پیدا ہوئی ہے۔ مگر ان کے بقول تیزاب کی فروخت کی نگرانی نہیں کی جا رہی جس کے باعث ایسے حملے اب بھی جاری ہیں۔
حالیہ دنوں میں یکے بعد دیگر عورتوں پر سنگین تشدد کے متعدد واقعات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ میڈیا میں ایسے واقعات کی تشہیر ہو سکتی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ عورتوں پر سنگین تشدد اس لیے بھی بڑھا ہے کیوںکہ عورتیں اپنے حق کے لیے کھڑی ہو رہی ہیں۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عورتوں کے خلاف تشدد اور قبیح روایات کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں قانون سازی کے علاوہ دیگر مؤثر اقدامات بھی کرے گی۔
مگر کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ معاشرے میں مردوں کے خلاف تشدد بھی موجود ہے اور اس کے خلاف بھی آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔