دہشت گردی اور انتہاپسندی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی وادی سوات میں زیادہ بولنے پر سسرالیوں نے بہو کی زبان کاٹ دی ہے۔
فاطمہ نامی 22 سالہ خاتون کے ساتھ یہ واقعہ ضلع سوات کی تحصیل کبل کے ایک گاؤں میں پیش آیا۔
متاثرہ خاتون کے والد زبیر نے مینگورہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ دو دن قبل انہوں نے اپنے ایک پوتے کو فاطمہ کا حال احوال معلوم کرنے کے لیے بھجوایا تو خاتون کے زخمی ہونے کا علم ہوا جس کے بعد انہوں نے اور ان کے دیگررشتہ داروں نے فاطمہ کو علاج معالجے کی غرض سے اسپتال منتقل کیا۔
کبل اسپتال کے ڈینٹل سرجن عبدالصبورنے وائس آف امریکہ کوبتایا ہے کہ متاثرہ خاتون کی زبان دو سینٹی میٹرتک کاٹی گئی ہے اور موجودہ حالت میں وہ بولنے کے قابل نہیں۔
ڈاکٹر عبدالصبور کے مطابق متاثرہ خاتون کی قوت گویائی کی بحالی کے لیے طویل دورانیے کا علاج اور پلاسٹک سرجری کرنا ہوگی۔
تحصیل کبل کے ایک پولیس افسر ریاض خان نے بتایا ہے کہ متاثرہ خاتون کے والد کی شکایت پر باقاعدہ مقدمہ درج کرلیاگیاہے اور اس سلسلے میں دو خواتین سمیت تین افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
متاثرہ خاتون کے والدنے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ملزمان بہت بااثرہیں اور وہ اب ان کو صلح کے لیے مجبور کررہے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن غزالہ رحمن نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
غزالہ رحمن کے بقول وادی سوات میں خواتین کے خلاف تشددکے واقعات میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران وادی سوات میں لگ بھگ دودرجن خواتین کو غیرت کے نام پرقتل کیا گیا۔