رسائی کے لنکس

افغانستان میں خواتین اور بچے نشے کے عادی کیوں ہو رہے ہیں؟


اقوام متحدہ کے مطابق خواتین اور بچوں میں نشے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
اقوام متحدہ کے مطابق خواتین اور بچوں میں نشے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

اقوام متحدہ کی 2015 میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 24 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ملک میں منشیات کی باآسانی دستیابی کے باعث مرد و خواتین سمیت بچے بھی منشیات کے عادی ہو رہے ہیں۔

نشے کی عادی کابل کی رہائشی سروان بھی اپنے دس سالہ بچے کیو(کم عمری کے باعث پورا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا) کی وجہ سے پریشان ہیں جو اپنے والد کی استعمال کردہ ہیروئین کا نشہ کرنے سے خود بھی اس کا عادی ہو گیا۔ موسم گرما میں کیو چھپ کر یہ نشہ کرتا رہا۔ کیو بڑا آدمی بننا چاہتا ہے لیکن اس کی والدہ کہتی ہیں کہ پہلے اسے نشے کی لت چھوڑنا ہو گی۔

کیو کی والدہ اسے لے کر کابل میں قائم ایک بحالی مرکز پہنچ گئی۔ جہاں دونوں ماں بیٹا 45 دن کے لیے وہیں مقیم ہیں۔ اس مرکز میں دونوں کے نشے کا اثر دور کرنے کا کورس کرایا جا رہا ہے۔

دس سالہ کیو کے مطابق وہ ایک ماہ تک یہ نشہ کرتا رہا اب اس کے جسم کا ہر حصہ دکھتا ہے، ہڈیوں میں تکلیف ہوتی ہے۔ اس کی والدہ کے بقول اس کی آنکھیں اندر کی جانب دھنس گئیں ہیں کمزوری کے باعث اس کا جسم اب ہڈیوں کا ڈھانچہ لگتا ہے۔

بحالی مرکز میں خواتین موجود ہیں۔
بحالی مرکز میں خواتین موجود ہیں۔

اقوام متحدہ کی جائزہ رپورٹ کے مطابق کیو اور اس کی والدہ کی طرح افغانستان میں ہزاروں خواتین اور بچے نشے کی لت میں مبتلا ہیں جب کہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغانستان میں 2005 میں افیون اور ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد 2 لاکھ تھی جو 2009 میں بڑھ کر تقریبا 10 لاکھ ہو گئی۔ 2015 تک یہ تعداد 19 لاکھ بڑھ کر 24 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔

رپورٹس کے مطابق منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کی اصل وجہ اس کی باآسانی دستیابی ہے۔ نشے کی یہ لت والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ حاملہ خواتین بھی غیر معیاری افیون کو استعمال کر رہی ہیں جس سے نومولود بچوں کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2009 میں محض 3 فی صد خواتین نشے کی عادی تھی۔ 2015 میں یہ شرح بڑھ کر 9.5 فی صد ہو گئی ہے۔ 2015 سے افغانستان میں نشہ کے عادی بچوں کی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم 2015 کے اعدادوشمار کے مطابق 14 سال کی عمر تک 9.2 فی صد بچے کسی نہ کسی نشے کے عادی ہیں۔

انسداد منشیات کے لیے افغانستان میں اقوام متحدہ کی اہل کار انوبھا سود کا کہنا ہے کہ 2015 کے جائزے کے بعد اس بات کا اندازہ مشکل نہیں ہے کہ چار سال کے عرصے میں مزید خواتین اور بچے نشے کے عادی ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ "کسی بھی خاندان کے لیے معاشی، سماجی اور نفسیاتی طور پر اس صورتِ حال سے نمٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ خدانخواستہ اگر یہی صورتِ حال برقرار ہی تو افغانستان کی پوری معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔"

لیکن انوبھا یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بدامنی، سالہا سال سے جاری خانہ جنگی اور غیر یقینی مستقبل میں شہری سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو یہ نشہ انہیں وقتی طور پر فراہم کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق دیہی علاقوں میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ جس کی وجہ یہاں پوست کی کاشت کے بعد افیون اور ہیروئین کی مقامی سطح پر تیاری ہے۔

افیون کے کھیت میں موجود افغان خواتین
افیون کے کھیت میں موجود افغان خواتین

منشیات کی عادی خواتین اور بچوں کی بحالی کے لیے کابل میں 2016 میں سو بستروں پر مشتمل اسپتال قائم کیا گیا۔ اسپتال کی سربراہ ڈاکٹر شائسہ حکیم کہتی ہیں کہ خواتین شرم کے باعث علاج کرانے سے گریز کرتی تھیں۔ اب کیوں کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا لہذٰا اب اسپتال آنے والی خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

افغانستان پوست کی کاشت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس کی کاشت روکنے کے ضمن میں بھاری سرمایہ خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں 2 لاکھ 63 ہزار ہیکٹر رقبے پر پوست کاشت کی گئی۔

XS
SM
MD
LG