مذہب سے وابستگی کے لحاظ سے مرد اور عورت کیوں اور کیسے ایک دوسرے سے مختلف ہیں یہ بحث کا کوئی نیا موضوع نہیں بلکہ دہائیوں سے ماہرین سماجیات اس پر گفتگو کر رہے ہیں اور آج بھی بہت سے تعلیمی مطالعوں اور عام لوگوں کے درمیان یہ بحث جاری ہے۔
اسی موضوع پر شائع ہونے والی پیو ریسرچ کی ایک جائزہ رپورٹ میں یہ دریافت ہوا ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ 'مذہبی' اور 'متقی' ہیں۔
مطالعاتی جائزے میں یہ دیکھا گیا کہ کتنے لوگ خود کو کسی خاص مذہب سے منسلک کرتے ہیں۔
نتائج سے ظاہر ہوا کہ دنیا بھر میں اندازاً 79.9 فیصد مردوں کے مقابلے میں 83.4فیصد عورتوں نے ایک عقیدے کے ساتھ اپنی شناخت ظاہر کی تھی۔
پیو ریسر چ کے مطابق مذہبی وابستگی میں یہ فرق 3.5 فیصد پوائنٹس تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر میں 97 لاکھ زیادہ عورتوں نے مردوں کے مقابلے میں مذہبی وابستگی کا دعویٰ کیا ہے۔
مطالعے میں دنیا کے چھ مختلف مذہبی گروہوں عیسائی، مسلمان، یہودی، بدھ مت، ہندو اور لادین افراد کے درمیان جنس اور مذہب پر وسیع اعداوشمار پیش کئے گئے ہیں۔
ان وسیع اور جامع اعدادوشمار کی بنیاد پرتحقیق سے پتا چلا کہ عالمی سطح پر عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ متقی ہیں۔
عیسائی عورتوں میں مردوں کے مقابلے میں چرچ کی دعائیہ سروس میں حاضری کے امکانات زیادہ تھے تاہم یہودیوں اور مسلمانوں میں مردوں کے مساجد یا عبادت خانے جانے کے زیادہ امکانات تھے۔
پیو رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تاریخ کے سب سے زیادہ بااثر مذہبی رہنما مرد رہے ہیں اور اس کے باوجود مذہبی وفاداری کے لحاظ سے عورتوں کا غلبہ رہا ہےجبکہ بہت سے مذاہب اور فرقوں میں انھیں اعلیٰ قیادت کے عہدوں سےخارج کیا گیا ہے۔
دنیا کے 84 ممالک میں2008 سے 2015کے درمیان منعقد کئے جانے والے عام آبادی کے انٹرنیشنل پیو ریسرچ جائزے کے مطابق تقریباً تمام مذاہب میں عورتوں کے مردوں کے مقابلے میں دن میں کم ازکم ایک بار عبادت کرنے یا نماز ادا کرنے کے امکانات تھے۔
مردوں اور عورتوں میں 'مذہبیت کی پیمائش' کرنے کے لیے محققین نے مردوں اور عورتوں کی طرف سے ہفتہ وار عبادات کے لیےحاضری، پابندی سے نماز یا عبادت کی ادائیگی اور روزانہ کی عبادت کے معمولات کو دیکھا ہے۔
تقابلی جائزے سے پتا چلا کہ ایک طرف تو عورتیں مردوں سے زیادہ مذہبی تھیں وہیں کچھ ممالک اور مذہبی گروہوں میں مردوں نے مذہبی وابستگی کی اعلیٰ سطح کو ظاہر کیا تھا۔
عیسائی عورتیں مردوں سے زیادہ مذہبی تھیں اس کے برعکس مسلمان عورتیں اور مسلمان مرد دینداری کی سطحات میں ایک جیسے ہی تھے۔
عیسائی خواتین میں نصف سے زیادہ 53 فیصد، یہودیوں میں 52 فیصد، بدھ مت کے پیروکاروں میں 54 فیصد اور ہندوؤں میں 49 فیصد عورتوں نے خود کو ایک عقیدے کے ساتھ منسلک بتایا جبکہ مسلمان جنس کے اعتبار سے برابر تقسیم تھے۔
لیکن سب سے بڑا صنفی فرق لادین افراد کے درمیان تھا جہاں 55 فیصد مرد اور 45 فیصد عورتیں لادینیت پر یقین رکھتے تھے۔
مجموعی طور پر 40ممالک جہاں مسلمانوں کی روزانہ نماز کی عادت پر اعدادوشمار جمع کئے گئے تھے وہاں عام مسلمان مردوں کے مقابلے میں زیادہ عورتوں نے بتایا کہ وہ پابندی سے پانچ وقت نماز ادا کرتی ہیں۔
اسی طرح ان ممالک میں مذہب کی اہمیت کے اعدادوشمار میں کوئی فرق نہیں تھا جہاں مذہب کو انتہائی اہم بتانے والے مسلمان عورتوں اور مردوں کی تعداد ایک ہی جیسی تھی۔
اور جب 40 ممالک میں ہفتہ وار دعائیہ سروس میں حاضری کے لحاظ سے جمع کئے جانے والے اعدادوشمار کو دیکھا گیا تو یہ پیٹرن مختلف تھا جہاں مسلمان مردوں میں عورتوں کے مقابلے میں پابندی سے ہفتہ وار نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد جانے کا امکان تھا۔
رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ اقتصادی طور پر مستحکم ممالک کے مقابلے میں امریکہ کے لوگوں نے مذہبی وابستگی کی غیر معمولی سطح کا مظاہرہ کیا جہاں 64 فیصد عورتیں اور 47 فیصد مردوں نے بتایا کہ وہ پابندی سے عبادت کرتے ہیں جبکہ فرانس میں صرف 15 فیصد عورتیں اور 9 فیصد مرد روزانہ عبادت کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر امریکہ میں60 فیصد عورتوں اور40 فیصد مردوں نے کہا کہ ان کی زندگی میں مذہب انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی وابستگی کے حوالے سے حیاتیات، نفسیات، جینیات، خاندانی ماحول، سماجی و ثقافتی عوامل مثلاً مذہبی روایات، افرادی قوت میں شرکت جیسے عوامل مذہبی فرق کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ماہرین سماجیات یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کے ہر معاشرے، ثقافت اور عقیدے سے تعلق رکھنے والی عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ مذہبی ہوتی ہیں۔
لیکن کچھ سماجی سائنس دان مذہب میں صنفی فرق کے لیےحیاتیاتی نظریہ پیش کرتے ہیں اور اس کی ممکنہ تشریح جسمانی اور جینیاتی اختلافات کے ساتھ کرتے ہیں۔