پاکستان میں جب کبھی ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل پر بات ہوتی ہے تو گفتگو میں عام طور پر اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کے مسائل کو شامل نہیں کیا جاتا۔ یہ شکوہ کیا ’وائس آف امریکہ‘ سے پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کچھ خواتین نے۔
سمن لئیق عباسی نے جو ’انوائرنمینٹ سیفٹی‘ اور ہیلتھ اور فارمیسی کے شعبے میں متعدد انتظامی عہدوں پر کام کہ چکی ہیں، کہتی ہیں کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ خواتین میں مردوں کی طرح اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس لیے خواتین کو لیڈرشپ رول میں پہنچنے، ان پر قائم رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے کئی گنا زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ان خواتین کو اپنی تمام تر محنت اور صلاحیتوں کے باوجود، آرگنائزیشنل لیول پر اہم فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا یا ان کی رائے کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کہ ان کے ہم منصب مردوں کو دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، بعض اوقات خواتین کو پریشرائز کیا جاتا ہے اور انہیں اپنی پوزیشن پر برقرار رہنے کے لیے بہت سے کمپرومائزز کرنے پڑتے ہیں‘‘۔
ٹیکسٹائل کیمیلز کے شعبے میں ایک لیڈرشپ رول ادا کرنے والی خاتون، شاہانہ کوکب نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ، خاص طور پر کام کی جگہوں پر مردوں کا ایک گروپ یہ سمجھتا ہے کہ خواتین سفارش یا اپنی خوبصورتی کے ناطے سے اعلیٰ عہدوں پر پہنچتی ہیں۔ اور خواتین کو ان کے اس غلط تاثر کو نہ صرف برداشت کرنا پڑتا ہے، بلکہ اسے درست کرنے کے لیے ان سے کئی گنا زیادہ محنت بھی کرنا پڑتی ہے۔
ایک اور اہم مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے، شاہانہ کوکب نے کہا کہ لگ بھگ تمام اداروں میں یہ غیر تحریری ضابطہ کارفرما ہے کہ خواتین کو اعلیٰ ترین پوسٹ پر نہ لگایا جائے اور انہیں ہمیشہ دوسرے نمبر کے عہدے پر رکھا جائے۔
کراچی میں ایک مشاورتی ادارے کی سی ای او اور متعدد مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں قائدانہ رول ادا کرنے والی ڈاکٹر بلقیس یاسمین کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کے لیے پیکیجز مردوں جیسے نہیں ہوتے، جب کہ اداروں میں سینیر لیول کے مردوں کا ایک گروپ بن جاتا ہے جو اعلیٰ صلاحیت رکھنے والی خواتین کو اپنی ترقی کی راہ میں ایک خطرہ سمجھتا ہے اور اپنی نیٹ ورکنگ کے ذریعے ان کے آگے بڑھنے کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔
زلیخا سورما پاکستان میں خطرناک کام کی جگہوں پر حفاظتی اقدامات کے آڈٹ کے شعبے کی اولین خواتین میں شامل ہیں اور اس شعبے میں ان کے پاس ایک لیڈرشپ رول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواتین کا اعلیٰ عہدوں پر پہنچنا ہی ایک مشکل عمل ہے اور اگر خواتین اپنی قابلیت اور محنت سے کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائیں تو ان کا ماتحت مرد عملہ انہیں مختلف انداز سے تنگ کرتا ہے۔ ان کی بات نہیں مانتا، ان کے کسی آئیڈیا کو اہمیت نہیں دیتا۔ اور اگر ان کا کوئی پراجیکٹ کامیاب ہو جائے تو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ ان کے ماتحت مرد کارکنوں کا کارنامہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان خواتین نے ایک اور اہم مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایکزیکٹیو لیول کی خواتین اپنے ہم منصب مردوں کی طرح گھر سے باہر کسی کافی ہاؤس میں، کسی ریسٹورنٹ میں اپنے ادارے کے مرد رفقائے کار یا ادارے سے باہر متعلقہ شعبوں کے مردوں کے ساتھ نیٹ ورکنگ نہیں کر سکتیں اور نہ ہی نیٹ ورکنگ کے لیے انہیں اپنے گھروں میں ضیافتوں میں مدعو کر سکتی ہیں، کیوں کہ ان چیزوں کو پاکستانی گھرانوں اور معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کے ان مسائل کے ممکنہ حل پر بات کرتے ہوئے بلقیس یاسمین نے کہا کہ ان خواتین کو اپنی محنت جاری رکھنی چاہیے اور کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔ شاہانہ کوکب نے کہا کہ اعلیٰ عہدے جن مہارتوں کا تقاضا کرتے ہیں خواتین کو چاہیے کہ وہ خود کو ان سے اپ ڈیٹ کریں۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کے ارتھ اینڈ انوائرنمینٹ ڈپارٹمنٹ اور سندھ مدرستہ الإسلام کے انوائرنمینٹ اینڈ سائنس شعبے کی سابقہ سربراہ اور یونیورسٹی آف کراچی کی ایسو سی ایٹ پروفیسر سیما جیلانی کا کہنا تھا کہ ان مسائل کے حل کے لیے اداروں کے سینئر رفقائے کار کو ان خواتین کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔
زلیخا سورما کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس سلسلے میں مردوں کی سوچ بدلنے اور انہیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ خواتین بھی مردوں کی طرح اعلیٰ صلاحیتیں رکھتی ہیں؛ اور اگر وہ اونچے عہدوں پر پہنچ جائیں تو انہیں بھی ان کی اعلیٰ کارکردگی پر اپنے ہم منصب مردوں کی طرح کریڈٹ ملنا چاہیے۔