صدر آصف علی زرداری نے جمعہ کو وزیراعلیٰ ہاوٴس کراچی میں خواتین کو ان کے مقام کار پر ہراساں کرنے سے متعلق بل پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ بل اب قانون بن گیا ہے۔ اس بل کا مقصد خواتین کو کام کے دوران بہتر ماحول فراہم کرنا اور اُنھیں جنسی طور پر ہراساں ہونے سے بچانا ہے اور اسے سینٹ اور قومی اسمبلی میں پہلے ہی منظور کیا جا چکا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی نے بل کی تفصیلات سے وائس آف امریکہ کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بل میں ضابطہ فوجداری کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت خواتین کو دفتر یا کام کرنے کے دیگر مقامات پر جنسی طور پر ہراساں کرنے یا ان کی حیا کی توہین کی سزا کی مدت ایک سال سے بڑھا کر تین سال کردی گئی ہے اور جرم ثابت ہونے پرجرمانہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔
شرمیلا فاروقی کا کہنا ہے اس سے نہ صرف خواتین کے روزگار کی شرح بڑھے گی بلکہ غربت میں بھی کمی واقع ہوگی۔ تاہم اُن کے بقول اس قانون سے صرف خواتین ہی نہیں مرد بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ” تھوڑی سی جو غلط فہمی اس بل کے حوالے سے ہے کہ شاید خواتین اس کا غلط استعمال کریں لیکن یہ مردوں کے لیے بھی ہے اگر کسی مرد کو ہراساں کیا جاتا ہے تو وہ بھی شکایت کر سکتے ہیں اور اس میں چھوٹی بڑی تمام سزائیں ہیں۔ “
اگرچہ صدر کے دستخط کے بعد یہ بل پاکستان کے قانون کا حصہ بن گیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے حوالے سے حقوقِ نسواں کی تنظیموں کے تحفظات برقرار ہیں۔ اس حوالے سے شرمیلا فاروقی کا کہنا ہے خواتین کو تحفظ دینے کے اس قانون پرعمل درآمد کے لیے باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور اس کی پاسداری ہر ادارے پر لازم ہے۔
اُنھوں نے کہا ” آج یہ بل سائن ہوگیا ہے اور 30 دنوں کے اندر ہر ادارے کو انکوائری کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ اگرکوئی ادارہ کمیٹی تشکیل نہیں دینا تو اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ انکوائری کمیٹی پابند ہے کہ اگر کوئی شکایت ان کے پاس آتی ہے تو وہ پابند ہیں کہ تین دنوں کے اندر وہ ملزم کو ایک نوٹس دیں اور سات دن میں ملزم نے جواب دینا ہے۔ اس کے بعد پوری ایک کارروائی شروع ہوگی اور تیس دن کے اندر انھوں نے اس کا فیصلہ سنانا ہے“۔
ان کے بقول اس پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے طریقہ کار بہت سخت ہے اور ”اس کے بعد یقیناً حکومت اور باشعور میڈیا موجود ہیں، ہم اس پر سختی سے عمل درآمد کرائیں ۔“
واضح رہے کہ گذشتہ حکومت نے بھی خواتین کے خلاف تشدد کی حوصلہ شکنی کے لیے کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل جیسے قوانین میں تبدیلیاں کی تھیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی حال ہی میں مرتب کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں گذشتہ سال مختلف واقعات میں خوتین کے قتل میں 11.3 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔