رسائی کے لنکس

غریدہ فاروقی کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرولنگ، ’’یہ خوفزدہ لوگ ہیں اختلاف رائے کا احترام نہیں کرتے‘‘


غریدہ فاروقی
غریدہ فاروقی

"یہ خوفزدہ لوگ ہیں،یہ لوگ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے، جمہوری حق کو تسلیم نہیں کرتے، پاکستان میں صحافت کو پنپنے نہیں دینا چاہتے، تنقیدی سوچ کا فروغ نہیں چاہتے، اختلاف رائے کا احترام نہیں کرتے" یہ کہنا تھا وائس آف امریکہ کے فیس بک لائیو میں پاکستانی صحافی اور نیوز چینل 'نیوز ون' سے وابستہ پولیٹکل شو اینکر غریدہ فاروقی کا جن کے خلاف گزشتہ کئی روز سے ایک انتہائی نا زیبا سوشل میڈیا ہیش ٹیگ ٹریند کیا جارہا تھا۔

غریدہ فارقی کا الزام ہے کہ اس ٹرینڈ کے پیچھے سابق وزیراعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا ہاتھ ہے۔ ٹویٹر پر جاری اس ٹرینڈ پر ہونے والی اکثر ٹویٹس کی پروفائل دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے حامی ہیں۔

تحریک انصاف کے راہنما عام طور پر اس طرح کے الزامات کے بعد میڈیا میں یہ موقف اختیار کرتے رہے ہیں کہ ان کا آفیشل سوشل میڈیا کسی کو ٹرولنگ کا نشانہ نہیں بناتا البتہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے حامی اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر کس ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد اور خود غریدہ کی اپنی شکایت پر ٹوئیٹر نے یہ ہیش ٹیگ ہٹا دیا مگر کچھ ہی دیربعد حروف میں ردو بدل کر کے اسے دوبارہ ٹرینڈ بنانے کی کوشش کی گئی۔

اس سوال پر کہ ان کے بارے میں یہ رائے ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں اور پی ٹی آئی مخالف ہیں، غریدہ کا کہنا تھا کہ اسی پی ٹی آئی کا جب 2014 میں دھرنا رپورٹ کرتی تھی تو سب ان سے خوش تھےحالانکہ تب بھی وہ صرف اپنا کام کرتی تھیں اور آج بھی وہی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہر حکومت پر تنقید کی ہے اور کرتی رہیں گی۔

ایک ایسے وقت میں جب ملک کے کئی حصے قدرتی آفات کا شکار اور مدد کے منتظر ہیں پاکستانی سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹرینڈز سیاسی طنز اور الزام تراشیوں پر مبنی ہی نظر آتے ہیں۔ فیصل آباد میں ہونے والا واقعہ بھی اس روز سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل تھا، جس میں ایک میڈیکل کی طالبہ پر شہر کے ایک طاقتور خاندان نے مبینہ طور پر تشدد کرکے اس کی وڈیو سوشل میڈیا پر جاری کی ، مگر اس واقعے کی مذمت میں اگر 42 ہزار ٹویٹس تھیں تو غریدہ فاروقی کے خلاف ٹرینڈ ایک لاکھ 28 ہزار ٹویٹس کے ساتھ سر فہرست تھا۔

غریدہ فاروقی کا جو گزشتہ بیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، کہنا ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں جب انہیں کسی شرمناک ٹرینڈ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہو۔ ان کے بقول یہ کیمپین کئی سال سے جاری ہے۔

'کوئلیشن آف وومن ان جرنلزم' دنیا بھر کی خواتین صحافیوں کی اتحادی تنظیم ہے۔ ادارے کی ڈائیریکٹر کرن نازش کے مطابق تنظیم کے گزشتہ دو سالوں کے ڈیٹا کے جائزے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے 132 ممالک میں سے ان پانچ ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ آن لائن ٹرولنگ کیمپینز چلائی جاتی ہیں۔ ان کے مطابق ایسا شازو نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی سیاسی یا حکومتی شخصیت کی جانب سے خواتین صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہو مگر پاکستان میں یہ بھی سوشل میڈیا پر ہوتا نظر آتا ہے۔

صحافی علینہ وقار، اسلام آباد، ستمبر 11، 2020
صحافی علینہ وقار، اسلام آباد، ستمبر 11، 2020

پاکستان کی ایک اور سینئر صحافی عاصمہ شیرازی اس وقت آج نیوز سے وابستہ ہیں اور صحافت کی فیلڈ میں جرأت اور صحافتی دیانتداری اور اصولوں کی پاسداری پر2014 میں پیٹر میکلر ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ عاصمہ شیرازی، غریدہ فاروقی کے خلاف اس توہین آمیز سوشل میڈیا ہیش ٹیگ اور اس ٹرینڈ کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب صحافی سیاسی جماعتوں کے راہنما، جن میں سر فہرست پاکستان تحریک انصاف ہی ہے، شکایت کرتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ آپ نے بھی ہمارے (پی ٹی آئی) خلاف کچھ لکھا ہوگا حالانکہ صحافی صرف صحافتی ذمہ داریاں ہی پوری کررہے ہیں۔ دوسری طرٖف غریدہ کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ان کی بات سےاتفاق کیا جائے، بے شک کڑی تنقید ہو لیکن فحش گالیاں دینا قابل قبول نہیں ہے۔

آئے روز چلنے والے سوشل میڈیا ٹرینڈز خواتین صحافیوں پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں اس پر غریدہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایسا سمجھا جائے کہ انہوں نے مگر مچھ کی موٹی کھال پہن لی ہے مگر ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس آن لائن ہراسانی کے بعد کئی خواتین صحافیوں کو سوشل میڈیا پر کچھ لکھنے یا تنقید سے پرہیز کرتے ہوئے دیکھا ہے جو سیلف سنسرشپ کے زمرے میں آتا ہے اور خواتین صحافیوں کے خلاف آن لائن حملوں کا مقصد بھی یہی ہےکہ وہ خوفزدہ ہو کر خاموش بیٹھ جائیں۔ عاصمہ شیرازی بھی غریدہ کی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ خواتین صحافیوں پر آن لائن جنسی نوعیت کی ہراسانی، الزامات، تصاویر میں ردوبدل کرکے انہیں عام کرنا، جنسی نوعیت کی دھمکیوں کا مقصد یہی ہے کہ انہیں معاشرے میں اتنا بدنام کر دیا جائے کہ وہ اس کا سامنا کرنے سے گھبرائیں اور اپنی آواز دبا لیں۔

کس قسم کی رپورٹنگ یا ٹویٹ پر زیادہ ردعمل آتا ہےَ؟ وائس آف امریکہ کےاس سوال پر غریدہ کا کہنا تھا کہ کچھ بھی لکھیں، خواہ وہ قرآنی آیت یا کوئی اقوال زریں ہی کیوں نا ہوں ان کے کمنٹس میں مغلظات اور الزامات آنا عام بات ہے تاہم موجودہ ٹرینڈ کے بارے میں ان کہا ہے کہ وہ شہباز گل کی گرفتاری اور اس کے بعد کی صورتحال پر رپورٹنگ کی وجہ سے شروع کیا گیا۔

گو کہ غریدہ اس صورتحال کے بعد بھی سوشل میڈیا پربھر پور انداز میں اپنے ذرائع کے حوالے سے خبریں اور ذاتی تجزیے پیش کر رہی ہیں عاصمہ شیرازی نے اپنی ٹویٹس پرکمنٹس کا آپشن عام افراد کے لیے بند کر دیا ہے۔

آن لائن ہراسانی کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کی 16 خواتین صحافیوں نے اگست 2020 میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس پر ایک ماہ کے عرصے میں ہی تقریباً 165 خواتین صحافیوں، صحافتی تنظیموں اور حقوق کارکنوں کے دستخط دیکھے جا سکتے تھے۔ اس اعلامیے کے مطابق خواتین کو ان کی صحافتی ذمہ داریوں سے روکنے کے لیے منظم انداز میں آن لائن مہم چلائی جاتی ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق ان کیمپینز میں ان صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی (اس وقت) حکومت پر تنقید کرتی ہیں۔ اعلامیے میں ان کیمپینز کے طریقہ کار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس نظام میں پہلے کسی حکومتی شخصیت یا اہم راہنما کی جانب سے کسی خاتون صحافی پر بے جا الزامات سے ابتدا کی جاتی ہے اور پھر سوشل میڈیا سیلز اور حامیوں کی جانب سے دشنام درازی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

یاد رہے اس اعلامیہ پر صحافی مہر بخاری سمیت دیگرکئی صحافیوں کے اعتراض کے بعد ستمبر میں ایک اور اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں حکومتی جماعت کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے نام بھی شامل کئے گیے۔ اس اعلامیہ پر 117 خواتین صحافیوں کے علاوہ صحافتی تنظیموں اور یکجھتی کے اظہار میں کئی مرد صحافیوں کے دستخط بھی شامل تھے۔

سال 2021 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ہی صحافی اور میڈیا سے متصل افراد کے لیے حفاظتی بل بھی متعارف کرایا گیا۔ گو کہ اس شق نمبر 6 کے غیر واضح ہونے پر صحافتی تنظیموں اور بین القوامی تنظیموں نے بھی احتجاج کیا تاہم سینئر صحافی، تجزیہ کار اور آزادی صحافت کے علمبردار مظہر عباس نے مجموعی طور پر اس بل کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اس بل میں صحافیوں کو ان کے کام سے روکنے، دھمکیاں دینے اور بدسلوکی پر تفتیش کے بعد قانونی کاروائی میں جرم ثابت ہونے پر سزا دی جائے گی۔ تاہم غریدہ فاروقی کے مطابق ان کی جانب سے آن لائن ہراسانی پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں جمع کرائی گئی کئی درخواستوں پر آج تک کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔

موجودہ دور میں پاکستان میں صحافی ہونا کتنا مشکل ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:16:52 0:00

سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنانے کے حوالے سے غریدہ فاروقی کے موقف پر ردعمل کے لیے جب پاکستان تحریک انصاف کی راہنما اور خواتین کی سیٹ پر رکن قومی اسمبلی رہنے والی عندلیب عباس سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ایسے ٹرینڈز ان کی جماعت کی طرف سے چلائے جاتے ہیں۔

انہوں نے واضح الفاظ میں انکار کیا ہے کہ یہ ٹرینڈز پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیلز سےنہیں چلائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہزاروں لاکھوں جذباتی حامیوں کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے۔ عندلیب عباس نے صحافیوں کی آن لائن ہراسانی اور خواتین صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا ٹرینڈز کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسئلہ قرار دیا مگر ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جب صحافی غلط خبریں پھیلانے کے لیے کچھ بھی لکھیں گے تو پھراس کا کوئی بھی ردعمل آسکتا ہے۔

عندلیب عباسی نے کہا کہ یہاں عورت کارڈ نہیں کھیلا جانا چاہیے۔ جب آپ مستقل جانبداری دکھائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ پارٹی تو ردعمل نہ دے مگر سپورٹرز اپنے طور پر دیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں ان کی حکومت پر صحافتی آزادی پر قدغن لگانے کے حوالے سے کئی سوال اٹھائے جاتے رہے لیکن اب جبکہ وہ حکومتی باگ ڈور پی ڈی ایم اتحادیوں کے ہاتھ ہے، ملک میں اے آر وائی نیوز چینل کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا ہے۔ میڈیا سے وابستہ کئی لوگوں کو حراست میں لیا گیا یا ان کے خلاف بغاوت کے الزام پر پرچے کاٹے گئے ہیں۔ ایک طرٖف مبینہ طور پر سرکاری مشینری میڈیا مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو دوسری جانب سوشل میڈیا پرکئی صحافیوں کو حسب دستور ہتک آمیز رویوں اور ٹرینڈز کا سامنا ہے جس سے ان کا مشکل کام مزید دشوار ہوگیا ہے۔

XS
SM
MD
LG