پاکستان میں خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر اُنہیں ہراساں کرنے کے واقعات اور نازیبا زبان کا استعمال بڑھ رہا ہے جس سے اُنہیں اپنے صحافتی فرائض سرانجام دینے میں مشکلات کا سامنا ہے، اور اُن کی ذہنی صحت اور سلامتی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
پاکستان کے مختلف صحافتی اداروں میں کام کرنے والی 150 سے زائد خواتین صحافیوں کی جانب سے 'ڈیجیٹل بدزبانی کے خلاف اتحاد' کے عنوان سے جاری کیے جانے والے اپنے مشترکہ بیان میں حکومت اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر انہیں ہراساں کیے جانے کو روکنے کے لیے چھ مطالبات پیش کیے گئے ہیں۔
مشترکہ بیان میں وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ محض بیان دینے سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات بھی کرے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ خواتین صحافیوں کو سیاسی جماعت پر تنقیدی رپورٹنگ کے نتیجے میں خاص طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور اس سے باز رکھنے کے لیے انتہائی مذموم اور بے ہودہ انداز میں ٹرولنگ کی جاتی ہے۔
خواتین صحافیوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ سرکاری حکام اور سیاست دانوں کی جانب سے صحافیوں پر بے بنیاد الزامات عائد کیے جاتے ہیں، جس کے بعد سوشل میڈیا پر نہ تھمنے والی مہم شروع ہو جاتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صحافی کی جانب سے تنقید کرنے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی ٹی آئی)، مذہبی جماعتوں اور ریاستی اداروں سے منسلک اکاؤنٹس سے ناشائستہ زبان استعمال کی جاتی ہے۔
خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتیں اور ان کے حامیوں اور سوشل میڈیا ونگز کی جانب سے ناشائستہ حملوں سے ہمارا کام، ذہنی صحت اور سلامتی متاثر ہو رہی ہے۔
خواتین صحافیوں نے کہا ہے کہ پریشان کن اور ناقابل قبول حقیقت یہ ہے کہ آن لائن حملوں اور ہراساں کیے جانے پر انہیں آرٹیکل چار کے تحت حاصل تحفظ نہیں ملتا۔
صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی' نے گزشتہ سال نومبر میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ آن لائن ہراساں کیے جانے کے واقعات سے 95 فی صد خواتین صحافیوں کا کام متاثر ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہراساں کیے جانے اور دھمکیوں سے تنگ آ کر کئی خواتین نے خود ساختہ سینسر شپ اختیار کر لی ہے۔
'کابینہ جلد سوشل میڈیا قواعد کی منظوری دے گی'
وزیر اعظم کے ڈیجیٹل میڈیا کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد کہتے ہیں کہ بدزبانی اور غلط خبروں کو قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون (پیکا) کے تحت سوشل میڈیا سے متعلق قواعد و ضوابط جلد کابینہ سے منظور کرائے جائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواتین صحافیوں کے اس بیان میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ذکر سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہراساں کرنے کی مہم کا ذمہ دار صرف تحریک انصاف کو ٹھیرانے کا گزشتہ بیان درست نہیں تھا۔
ارسلان خالد کا کہنا ہے کہ بدزبانی اور غلط خبر کی حقائق کے مطابق تردید کرنا دو الگ باتیں ہیں، جن میں فرق رکھنا چاہیے۔
وزیر اعظم کے فوکل پرسن کہتے ہیں کہ ایک عرصے سے عدلیہ اور عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر بدزبانی، نفرت انگیز گفتگو، ہراساں کرنے اور فحش مواد روکنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیکا قانون کے تحت سوشل میڈیا کے قواعد و ضوابط کا مسودہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پاس جائزے کے لیے بھجوایا گیا ہے جسے جلد ہی کابینہ سے منظور کرایا جائے گا۔
اس سے قبل 15 خواتین صحافیوں نے الزام لگایا تھا کہ حکمران جماعت تحریک انصاف کی ایما پر منظم مہم کے ذریعے انہیں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراساں کیے جانے کا سامنا ہے۔ تاہم تحریک انصاف نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے گزشتہ ماہ ان خواتین صحافیوں کو اپنے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بلوایا تھا، جس کے بعد انسانی حقوق کمیٹی نے وزارتِ اطلاعات اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے حکام کو آئندہ اجلاس میں طلب کر رکھا ہے۔
حواتین صحافیوں کے حالیہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کی بعض ساتھی خواتین نے 12 اگست کو اپنے بیان کے ذریعے میڈیا میں موجود خواتین کی مشکلات اور حقائق سامنے لانے کی کوشش کی۔
'سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا ونگ کی ذمہ داری لینا ہوگی'
صحافی اور حالاتِ حاضرہ کے ایک پروگرام کی میزبان فریحہ ادریس کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا ایک نئی حقیقت ہے اور اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے۔
اُن کے بقول آج کا میڈیا ڈیجیٹل میڈیا ہے جہاں ملکی خارجہ پالیسی سے لے کر اسکینڈل تک سب زیر بحث لائے جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح سیاسی جماعتیں اپنے نمائندوں کے بیانات کی ذمہ داری لیتی ہیں اسی طرح انہیں اپنے سوشل میڈیا ونگ کو بھی سامنے لانا ہو گا۔
اُن کے بقول یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کی ذمہ داری نہیں لے سکتیں۔
فریحہ ادریس نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتوں کو کسی صحافی سے کوئی مسئلہ ہے تو سوشل میڈیا پر اسے ٹرول کرنے کی بجائے کسی اور فورم پر بات کی جائے۔
ان کے بقول خواتین صحافی کوئی اضافی یا غیر معمولی رعایت نہیں مانگ رہیں۔ وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو جو عزت حاصل ہے، اس ماحول کی عکاسی سوشل میڈیا پر بھی ہونی چاہیے۔
خواتین صحافیوں کے مطالبات کیا ہیں؟
صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور معروف صحافیوں و تجزیہ نگاروں کی حمایت سے جاری بیان پر 150 سے زائد خواتین صحافیوں نے دستخط کیے ہیں۔
مشترکہ بیان میں حکومت اور سیاسی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے مطالبات بھی پیش کیے گئے ہیں جو یہ ہیں۔
- سیاسی جماعتوں، تنظیموں، سرکاری یا ریاستی اداروں کی سوشل میڈیا ٹیموں کے لیے فوری طور پر قواعد و ضوابط طے کیے جائیں۔
- تحقیقات کے ذریعے ان نیٹ ورکس کی نشان دہی کی جائے جو میڈیا میں کام کرنے والی خواتین پر منظم انداز میں حملے کرنے، ہیش ٹیگ اور ناشائستہ مہم شروع کرنے اور چلانے میں ملوث ہیں۔
- الیکشن کمشن، معلومات تک رسائی کے 2017 کے قانون کے تحت براہ راست تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ظاہر کرنے کے لیے ہدایات جاری کرے۔
- خواتین صحافیوں کی تضحیک کرنے والے افراد کے خلاف تفتیش شروع کی جائے اور ثبوت کی بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
- جب بھی کوئی صحافی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) یا پولیس میں آن لائن ہراساں کیے جانے یا دھمکیاں دیے جانے کی شکایت درج کرائے تو کیس کو کسی دباؤ کے بغیر شفاف حل تک پہنچایا جائے، نہ کہ متاثرین کو ہی مورد الزام ٹھیرایا جائے۔
- ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو خواتین کے خلاف آن لائن حملوں سے نمٹنے کے لیے ایک الگ ڈیسک قائم کرنا چاہیے۔ تفتیش کرنے والے عملے کو صنفی حساسیت سے متعلق تربیت دی جائے تاکہ وہ موثر کارروائی کر سکیں۔
- جرنلسٹ پروٹیکشن بل میں آن لائن دھمکیوں اور صحافیوں کے خلاف تشدد کا ادراک ہونا چاہیے اور اسے تفتیش کے لیے مؤثر بنایا جائے، تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن لائن حملوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
خواتین صحافیوں نے حکومت، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹیوں سے بھی نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی کہا ہے کہ حکومت ایسے قواعد و ضوابط پر کام کر رہی ہے جس کے ذریعے سوشل میڈیا ہر بدزبانی کو روکا جا سکے، گالم گلوچ کرنے والوں کی شناخت ہو سکے اور ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔