امریکی کمپنی نوواویکس کی ویکسین پر بڑے پیمانے پر ہونے والی ریسرچ تکمیل کے مراحل تک پہنچ گئی۔ یہ ویکسین اگر منظور ہوتی ہے تو کرونا وائرس کے خلاف یہ پانچویں ویکسین ہوگی۔ ملک میں پہلے ہی کرونا وائرس کی ویکسینز کی خوراک دینے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور دنیا بھر کی ویکسین کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ ویکسینز کی ضرورت ہے۔
نوواویکس کی ویکسین کے لیے 30 ہزار رضاکاروں نے تجربات میں شمولیت اختیار کی۔
امریکی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “اگر آپ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں پوری آبادی کو ویکسین لگ جائے تو، کم از کم 85 فیصد آبادی کو تو آپ کو ویکسین لگانی پڑے گی۔ ایسے میں دو کمپنیوں کی ویکسین کافی نہیں رہے گی۔”
صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ویکسین کے پروگرام آپریشن وارپ سپیڈ کے تحت امید کی جا رہی ہے کہ ریاستوں کو جنوری کے اوائل تک فائزر اور موڈرنا کی ویکسین کی دو کروڑ خوراکیں پہنچانے کا منصوبہ ہے۔
پیر کے روز تک سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے اندازے کے مطابق شپمنٹ کی گئی 1 کروڑ 14 لاکھ ویکسینز میں سے 21 لاکھ ویکسینز کی خوراک لوگوں کو دی گئی ہے۔
منی سوٹا کی کارلٹن کاؤنٹی کے صحت عامہ کے افسر جینی بارٹا کے مطابق ’’صرف اس لیے کہ ہم تک ایک ویکسین پہنچ گئی ہے تو ضروری نہیں ہے کہ اس کے لیے فوری طور پر کلینک بھی بن جائے گا۔‘‘
منگل کے روز تک ان کی ایجنسی سو افراد تک ڈرائیو تھرو کلینک کے ذریعے ایمرجنسی طبی ورکرز کے لیے ویکسین لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ نرسیں کاروں میں موجود افراد کو ویکسین لگائیں گی۔ ڈرائیورز ویکسین کے شاٹ لگوانے کے بعد پارکنگ میں انتظار کریں گے کہ آیا انہیں کوئی الرجک ردعمل تو نہیں ہو رہا۔
جینی بارٹا کے بقول اس وبا سے چھٹکارہ وہ ایک ایک فرد کو ویکسین لگا کر حاصل کر سکیں گے۔
نوواویکس کی ویکسین فائزر اور موڈرنا کی جدید آر این اے طریقہ کار سے بنی ویکسین سے الگ ہیں۔ نوویکسن کی ویکسین میں کرونا وائرس کی سپائک پروٹین جو صحت کے لیے مضر صحت نہیں ہیں، بنا کر اسے مدافعتی نظام کو طاقت بخشنے والے کیمیکل سے ملایا جاتا ہے۔ اس ویکسین کے لیے بہت زیادہ ٹھنڈے ماحول کی ضرورت نہیں ہوتی اور اسے فریج میں رکھا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ جلد ہی امریکی کمپنی جانسن اینڈ جانسن کی جانب سے بھی ویکسین کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔ یہ ویکسین بھی بے ضرر وائرس کی مدد سے بنائی گئی ہے۔ اس تکنیک میں ایک وائرس جسے ایڈینووائرس کہا جاتا ہے اس پر کرونا وائرس کی سپائیک جین شامل کی جاتی ہے جسے جسم کا مدافعتی نظام پہچان کر ردعمل دیتا ہے۔ کمپنی نے دسمبر کے وسط میں آخری مرحلے کے تجربات کے لیے 45 ہزار رضاکاروں کو بھرتی کیا تھا۔ ڈاکٹر فاؤچی کو امید ہے کہ اگلے مہینے تک اس ویکسین کے بھی نتائج آ جائیں گے۔
برطانیہ میں ایسٹرازینکا کی ویکسین کے تجربات بھی آخری مرحلے پر ہیں۔ برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل میں اس پر ہوئے تجربات سے اس ویکسین کے 70 فیصد موثر ہونے کے نتائج آئے ہیں۔ مگر یہ ویکسین 55 سال سے زیادہ عمر کے افراد پر کتنی موثر ہے، اس پر ابھی تجربات جاری ہیں۔ امریکہ میں بھی اس ویکسین پر جاری تجربات کے نتائج جلد میسر ہوں گے۔ ڈاکٹر فاؤچی کا خیال ہے کہ ان نتائج کے آںے کے بعد صورت حال زیادہ واضح ہو جائے گی۔
چین اور روس بھی اسی تکنیک کی طرز پر ویکسین بنانے پر کام کر رہے ہیں اور ان کے حتمی نتائج کے آنے سے پہلے ہی ان ویکسینز کی ترسیل پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ارجنٹائن بھی جلد ہی روس کی ویکسین استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔