دنیائے کرکٹ کے میلے عالمی کپ کا 12 واں ایڈیشن 30 مئی سے انگلینڈ اور ویلز میں شروع ہو رہا ہے۔
اب سے 44 سال قبل 1975 میں جب اس نئے فارمیٹ کے عالمی ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا تھا تو کسے خبر تھی کہ بالآخر یہ ٹورنامنٹ فیفا ورلڈ کپ اور اولمپک کھیلوں کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ٹورنامنٹ بن جائے گا۔
1975 میں جب پہلے ایک روزہ میچوں کے عالمی ٹورنامنٹ کا انعقاد انگلینڈ ہی میں کیا گیا تو اُس وقت انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) بھی اس تذبذب کا شکار تھی کہ اسے ورلڈ کپ کہا جائے یا نہیں، کیونکہ اس ٹورنامنٹ کو اتنا بڑا نام دینے سے ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ متاثر ہونے کا خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا، جسے کرکٹ کا کلاسک اور حقیقی فارمیٹ تصور کیا جاتا تھا۔ یوں اسے پروڈنشل کپ کا نام دیا گیا۔ تاہم، انگلینڈ کے میڈیا نے اسے پروڈنشل کپ کے بجائے کرکٹ ورلڈ کپ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ یوں رفتہ رفتہ یہ عالمی ٹورنامنٹ ورلڈ کپ سے موسوم ہو گیا۔
ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے معروف کرکٹ کومنٹیٹر ٹونی کوزیئر نے پہلے ورلڈ کپ کے بعد کہا، ’’ ہاتھ گھما کر بال کرنے کی روایت کے بعد یہ کرکٹ کی تاریخ کی سب سے دلیرانہ اور شاندار اختراع تھی۔‘‘
30 مئی سے 14 جولائی تک جاری رہنے والے بارھویں ورلڈ کپ کے دوران کل دس ٹیموں کے درمیان 58 میچ کھیلے جائیں گے۔ یہ میچ انگلینڈ اور ویلز میں 11 مختلف وینیوز پر ہوں گے اور فائنل میچ 14 جولائی کو لارڈز کے میدان میں کھیلا جائے گا جسے شائقین کرکٹ روحانی مرکز گردانتے ہیں۔
انگلینڈ پانچ بار ورلڈ کپ کی میزبانی کر چکا ہے، جبکہ ویلز میں ورلڈ کپ کے میچ دوسری مرتبہ منعقد ہوں گے۔
7 جون، 1975 سے شروع ہونے والا ورلڈ کپ کا پہلا ایڈیشن پروڈنشل کپ کہلایا۔ آئی سی سی کا مقصد تھا کہ کھیلوں کی دنیا کے بڑے ٹورنامنٹس کی طرز پر کرکٹ کا بھی عالمی ٹورنامنٹ منعقد کیا جائے جس میں جوش، جذبہ، مقابلہ بازی، جیت اور شکست تمام پہلو موجود ہوں اور یہ پہلا ایڈیشن سب کچھ دکھانے میں مکمل طور پر کامیاب رہا۔
اس ٹورنامنٹ میں کل 8 ٹیموں نے حصہ لیا جن میں ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ رکھنے والی 6 ٹیمیں یعنی انگلینڈ، آسٹریلیا، پاکستان، بھارت، ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ شامل تھیں۔ ان کے علاوہ آئی سی سی کی کلیدی ایسوسئیٹ ممبر ٹیم سری لنکا اور ایسٹ افریقہ کی ٹیمیں بھی اس اولین ورلڈ کپ مقابلے کا حصہ بنیں۔
ان آٹھ ٹیموں کو چار چار کے دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ہر گروپ میں شامل تمام ٹیموں نے ایک دوسرے کے خلاف میچ کھیلے اور دونوں گروپس سے دو دو ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچیں۔
پول میچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان کی کارکردگی شاندار رہی۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 60 اووروں میں ماجد خان کی سنچری کی بدولت سات وکٹیں کھو کر 266 رنز بنائے۔ یوں ویسٹ انڈیز کو یہ میچ جیتنے کیلئے267 رنز کا ہدف ملا اور ایک وقت پر ویسٹ انڈیز کی 9 وکٹیں 203 رنز پر گر چکی تھیں اور خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان یہ میچ نہایت آسانی سے جیت لے گا۔ تاہم، ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر ڈیرک مرے اور فاسٹ بالر اینڈی رابرٹ نے دسویں وکٹ کی شراکت میں 64 رنز بنا کر یقینی ہار کو جیت میں بدل دیا۔ مرے 61 اور رابرٹ 24 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔ یہ اُس وقت آخری وکٹ کی شراکت کا نیا ریکارڈ تھا۔ یوں پاکستان کی سیمی فائنل میں پہنچنے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔
ادھر دوسرے گروپ میں بھارت کے خلاف کھیلتے ہوئے انگلینڈ نے اس وقت کا نیا بیٹنگ ریکارڈ قائم کر دیا جب انگلینڈ نے ڈینس ایمس کی سنچری کے باعث چار وکٹوں پر 334 رنز بنا ڈالے۔ جواب میں بھارت کو تیز رفتاری کے ساتھ رنز بنانے کی ضرورت تھی مگر بھارت کے اوپنر سنیل گواسکر نے پورے 60 اوورز کھیل کر نہایت سست روی سے صرف 36 رنز بنائے اور یوں بھارت اس میچ میں تین وکٹوں کے نقصان پر صرف 132 رنز بنا سکا اور اسے 202 رنز سے شکست ہوئی۔
گروپ اے سے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ اور گروپ بی سے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا سیمی فائنل مرحلے کیلئے کوالی فائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یوں پاکستان اور بھارت دونوں سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے سری لنکا، پاکستان اور آسٹریلیا کو ہرا کر سیمی فائنل کیلئے کوالی فائی کیا اور سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے فائنل میں ایک مقام پر ویسٹ انڈیز کے صرف 50 رنز پر 3 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ اس موقع پر ویسٹ انڈیز کے سٹار بیٹسمین کلائیو لائیڈ نے 85 گیندوں پر 102 رنز کی دھواں دار اننگ کھیلی جو اس زمانے میں تاریخ کی تیز ترین سنچری کہلائی۔ یوں ویسٹ انڈیز کی ٹیم مقررہ 60 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 291 رنز بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
جواب میں ائن چیپل کی قیادت میں آسٹریلوی ٹیم 274 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ ویسٹ انڈیز کے کیتھ بوئس نے چار وکٹیں حاصل کر کے آسٹریلین بیٹسمینوں کو سنبھلنے نہ دیا۔ یوں یہ فائنل 17 رنز سے جیت کر پہلے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم ہونے کا اعزاز ویسٹ انڈیز کے سر رہا۔
اس ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے بیٹسمین گلین ٹرنر بہترین بیٹسمین ثابت ہوئے۔ اُنہوں نے سب سے زیادہ یعنی 333 رنز بنائے جبکہ انگلینڈ کے ڈینس ایمس 243 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔
بالنگ میں آسٹریلیا کے آل راؤنڈر گیری گلمور سب سے نمایاں رہے۔ وہ ٹورنامنٹ کے صرف آخری دو میچوں میں حصہ لے سکے۔ سیمی فائنل میں انگلینڈ کے خلاف کھیلتے ہوئے اُنہوں نے 14 رنز دے کر 6 اور فائنل میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 48 رنز کے عوض 5 وکٹیں حاصل کیں۔ یوں ٹورنامنٹ میں اُن کی کل وکٹوں کی تعداد 11 رہی۔