جنوبی افریقہ میں جاری فٹبال ورلڈکپ اپنے تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فٹبال کے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ مداح پوری دنیا سے جنوبی افریقہ آئے ہیں۔جوہانسبرگ شہر میں موجود دو سٹیڈیمز میں ورلڈ کپ کے 64 میں سے 15 میچز کھیلے جا رہے ہیں ۔ مقامی انتظامیہ اور کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ وہ ورلڈکپ کی میزبانی سے خوش ہیں ، کیونکہ اس سے انکے کاروبار بھی ترقی کر رہے ہیں۔
جنوبی افریقہ آنے والے تقریبا تین لاکھ پچاس ہزار شائقین میں سے نصف سے زائد جوہانسبرگ میں موجود ہیں۔ جس کی ایک وجہ جوہانسبرگ کا جغرافیائی ٕ محل وقوع ہے ۔سبونگیو مازابوگیو جوہانسبرگ 2010 نامی ایک پروگرام کی ایکزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال سے جوہانسبرگ شہر ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاںٕ سے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنےو الے تمام شہر قریب ہیں۔ راستن برگ ایک گھنٹہ، تاہوان آدھہ گھنٹہ اور بومبیلا اور پولوکوانے 5 گھنٹے سے بھی کم مسافت پر ہیں۔ اسی لیے اکثر شائقین جوہانسبرگ میں ہیں اور یہاں سے میچ دیکھنے جاتے ہیں ۔
جنوبی افریقہ نے ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے سٹیڈیم ، سڑکوں اور شہر کے بنیادی ڈھانچے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ لیکن پھر بھی 2006ءمیں جرمنی میں ہونے والے ورلڈکپ مقابلوں کے شائقین کی تعداد کم ہے۔ تجزیہ کار خراب عالمی معیشت ، یورپ سے دوری اور سیکیورٹی کی صورتحال کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
سرجیو مارٹینز اور انکے دوست سپین سے آئے ہیں لیکن انہیں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے خدشات ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم جانتے تھے کہ مسائل ہوسکتے ہیں ۔ سپین میں ہم ٹی وی پرمیچ دیکھتے رہے ہیںٕ۔ اور یہاں ڈرتے ہوئے آئے کہ پتا نہیں کیا ہوگا۔ لیکن ابھی تک ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوا ہے۔
بہت سے شائقین یہاں سے مختلف شہروں میں میچ دیکھنے کے لیے گاڑٰ ی سے جاتے ہیں اور سڑکوں پر ابھی تک تعمیراتی کام جاری ہے جس کی وجہ سے انھیں مشکلات کا سامنا ہے۔ مائک بریڈلی اور انکے دوست کینیڈا سے آئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم خود گاڑی چلا رہے ہیں۔ پہلے دن ہم ایک بڑے گڑھے میں پھنس گئے۔اب تک ہم دو ، تین ٹائر بدل چکےہیں۔ لیکن اس کے بعد سے صورت حال ٹھیک ہے۔
مقامی معیشت پر ورلڈکپ کے اثرات مثبت ہیں۔ جوہانسبرگ کا علاقہ میل ول اپنے ریستورانوں کی وجہ سے اپنی ایک شناخت رکھتا ہے۔۔شاکر ایک مقامی ریستورنٹ کے مالک ہیں ۔ انھوں نے ورلڈکپ کی تیاریوں میں اپنے ریستورانٹ پر تقریبا 25 ہزار ڈالر خرچ کیے۔ ان کا کہنا ہےکہ اس مہینے انکے کے کاروبار سے یہ خرچہ پورا ہو جائے گا۔
سومینیتا براوی ایک آرٹ گیلری کی مالک ہیں۔ انھوں نے ورلڈکپ کے حوالے سے خاص پینٹنگز کی نمائش کی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پچھلے دو ہفتوں میں انکی سیل 40 فیصد بڑھی ہے۔ اور زیادہ ترخریدار امریکی ہیں ۔
جوہانسبرگ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ورلڈکپ کے بعد بھی اس کے ثمرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انکا خیال ہے کہ ورلڈکپ کے بعد لوگوں کی رائے جنوبی افریقہ کے بارے میں بدل چکی ہوگی کہ یہ ایک دلچسپ اور محفوظ ملک ہے۔