عالمی معیشت، نیوکلیئر سیفٹی،عرب دنیا میں موسمِ بہار اور افریقہ کے واقعات فرانس میں ہونے والی کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل ہوں گے جہاں آٹھ کے گروپ کے ملکوں کے لیڈر جو دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جمعرات اور جمعے کے روز جمع ہوں گے۔
آٹھ کے گروپ کے ملکوں کے سرکاری ایجنڈے میں جو موضوعات شامل ہیں ان کےعلاوہ ایک موضوع ایسا ہے جو ایجنڈے میں تو شامل نہیں ہے ، لیکن جوعالمی لیڈروں کے اس اجتماع میں تفصیل سے زیرِ بحث آئے گا۔
وہ موضوع ہے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اگلے سربراہ کا انتخاب۔ یورپی لیڈر چاہتے ہیں کہ ڈومینک اسٹراس کاہن کی جگہ جو فرانسیسی ہیں اور جنھوں نے جنسی حملے کا الزام لگنے کے بعد اس مہینے کے شروع میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے چیف کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، فرانس کی موجودہ وزیرِ مالیات، کرسٹین لیگریڈ (Christine Lagarde) کا تقرر کر دیا جائے۔ اس عہدے پر روایتی طور پر یورپ کی کسی شخصیت کا تقرر ہوتا رہا ہے۔ لیکن ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ملکوں کا کہنا ہے کہ یہ عہدہ دوسرے امید واروں کے لیے بھی کھلا ہونا چاہیئے۔
خارجہ تعلقات کی یورپی کونسل کے پیرس آفس کے ڈائریکٹر تھامس کالہو کہتے ہیں کہ ایک اہم ٹیسٹ یہ ہوگا کہ جی ایٹ کے دوسرے ممالک خاص طور سے امریکہ ڈییوولے میں لیگریڈ کے تقرر کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں۔ ’’دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکی یعنی براک اوباما اور ان کے وفد کے ارکان اس قسم کا کوئی اشارہ دیتے ہیں کہ وہ کسی یورپین بلکہ لیگریڈ کے امیدوار ہونے پر مطمئن ہوں گے۔ اگرایسا ہوا تو پھر انہیں یہ عہدہ ملنا کم و بیش یقینی ہو جائے گا‘‘۔
ایک اور اہم موضوع عرب دنیا میں عوامی بیداری کی تحریکیں ہیں۔ توقع ہے کہ تیونس اور مصر کے وزرائے اعظم جی ایٹ کی کانفرنس میں موجود ہوں گے اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور امداد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ امریکہ پہلے ہی ان دونوں ملکوں کو اربوں ڈالر کی امداد کے وعدے کر چکا ہے۔
یہ توقع بھی ہے کہ لیبیا کا معاملہ بھی زیرِ بحث آئے گا جہاں نیٹو نے قذافی کی حکومت کے خلاف فوجی مہم شروع کر رکھی ہے ۔ تھامس کالہو ’’پیرس میں اور دوسرے دارالحکومتوں میں لیبیا میں فوجی کارروائیوں کے بارے میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ اس خطرے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہاں تعطل طول پکڑ سکتا ہے بلکہ ملک تقسیم ہو سکتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جی ایٹ کے لیڈر اس معاملے پر بات چیت کریں گے۔‘‘
جی ایٹ کے ملکوں پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ سربراہ اجلاس سے پہلے عالمگیریت کے مخالف ہزاروں لوگوں نے شمالی فرانس کے شہر لی ہیوری میں مظاہرہ کیا۔
اکسفیم جیسے غیرسرکاری گروپوں کا کہنا ہے کہ جی ایٹ کے ملکوں کے لیڈر وں نے 2005ء میں گیلن ایگلز اسکاٹ لینڈ کے سربراہ اجلاس میں دنیا کے غریب ترین ملکوں سے امداد کے جو وعدے کیے تھے وہ آج تک پورے نہیں کیے ہیں۔
اکسفیم کی ڈپٹی ڈائریکٹر فار ایڈووکیسی ایما سیری کہتی ہیں کہ جی ایٹ کے لیڈروں کو ڈییوولے میں زیریں صحارا کے افریقی ملکوں کے لیڈروں سے ملتے وقت ان وعدوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات واقعی اہم ہے کہ جی ایٹ کے ملک جب مشرق وسطیٰ کے بارے میں بات کریں تو وہ افریقہ کو فراموش نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مشرق وسطیٰ ان کے ایجنڈے پر نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے جو آج کل دنیا کو درپیش ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ جی ایٹ کے ملک اس پر سنجیدگی سے غور کریں۔‘‘
جی ایٹ کے ملکوں کی میزبانی فرانس کر رہا ہے جو جی ایٹ کے ساتھ اس گروپ کی قیادت کر رہا ہے۔ اس سربراہ کانفرنس سے فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کو یہ موقع ملے گا کہ صدارتی انتخابات سے ایک سال قبل بحیثیت بین الاقوامی مدبر اپنے تاثر کو بہتر بنائیں ۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فرانسیسی ووٹرز کو زیادہ فکر ملکی معیشت اور روزگار کی ہے نہ کہ اس بات کی کہ بیرونِ ملک مسٹر سرکوزی کی ساکھ کیسی ہے۔